ایک تازہ جائزے کے مطابق بیشتر جرمن شہری اس بات سے خوش ہیں کہ صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن نے ٹرمپ کو شکست دیدی۔ بیشتر کا یہ بھی خيال ہے کہ بائیڈن کی صدارت میں جرمنی اور امریکا کے رشتے بہتر ہوں گے۔
اشتہار
جرمنی میں ایک تازہ جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ 10 میں سے نو جرمن شہری اس بات سے کافی خوش ہیں کہ امریکا کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مات دے دی۔ جرمنی کے ایک سرکاری نشریاتی ادارے 'اے آر ڈی' نے اس سلسلے میں جمعرات 12 نومبر کو ڈچ لینڈ ٹرینڈ کے نام سے جو سروے کیا، اس میں 31 فیصد افراد نے نتائج کو اچھا بتایا جبکہ 58 فیصد نے انہیں بہت ہی اچھا قرار دیا۔
اس سروے میں حصہ لینے والے افراد میں سے بیشتر کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو بائیڈن کے دور صدارت میں جرمنی اور امریکا کے درمیان تعلقات کافی بہتر ہونے کی توقع ہے۔ چار برس قبل جب ٹرمپ نے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اس وقت بھی اسی طرح کا ایک سروے کیا گیا تھا لیکن اس کے برعکس اس وقت بیشتر جرمن نے ٹرمپ کے دور صدارت میں امریکا جرمن تعلقات خراب ہونے کی بات کہی تھی۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کو پہلے ہی ان کی کامیابی پر مبارک باد پیش کرچکی ہیں۔ اس ہفتے کے اوائل میں جرمن چانسلر نے کہا تھا کہ بین الاقومی امور کے تعلق سے جرمنی امریکا کے شانہ بشانہ کھڑ رہے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے چار سالہ دور صدارت میں امریکا اور جرمنی کے درمیان رشتے بہتر ہونے کے بجائے تلخیوں کا شکار رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ دفاع پر کم خرچ کرنے کے حوالے سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل پر مسلسل نکتہ چینی کرتے رہے اور جرمنی میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں بھی کافی کمی کر دی۔ روس کے ساتھ متنازعہ 'نورڈ اسٹریم 2' گیس پائپ لائن کے معاہدے کے حوالے سے بھی ٹرمپ انتظامیہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو مسلسل نشانہ بناتی رہی۔
امریکی الیکشن، صورتحال کیا رنگ اختیار کرے گی؟
05:03
ایک تہائی جرمن کووڈ 19 ویکیسن نہیں چاہتے
حال ہی میں امریکی دوا ساز کمپنی فائزر اور جرمن تحقیقی ادارے بائیواین ٹیک نے کووڈ 19 کے لیے ویکسین کی تیاری میں کافی پیش رفت کی بات کہی تھی، لیکن سروے سے معلوم پڑا ہے کہ تمام جرمن شہری اس سے نجات کے لیے اس طرح کا ٹیکہ لگوانے کے حق میں نہیں ہیں۔
اشتہار
سروے میں 15 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی صورت میں یہ ٹیکہ لگوانا پسند نہیں کریں گے، پہلے کے مقابلے ایسے افراد کی تعداد میں تین فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ 14 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں یہ ٹیکہ لگانے کا امکان کم ہے، اس زمرے میں بھی پہلے کے مقابلے دو فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
لیکن، جواب دہندگان میں سے 94 فیصد نے کورونا وائرس سے تحفظ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر ویکسین کے لیے قومی منصوبے کو درست قرار دیا اور اس کی حمایت کی۔ جب سے کورونا وائرس کی وبا کا آغاز ہوا ہے اس وقت سے جرمنی میں تقریباً سات لاکھ افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں اور 12 ہزار کے قریب ہلاک ہوئے ہیں۔
حکومت نے اس پر قابو پانے کے لیے جو بندشیں عائد کیں اس کے خلاف کئی بار احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں اور کئی بار ایسے مظاہروں میں پولیس کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے خلاف برلن جیسے شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔
اس ہفتے کے اوائل میں بائیواین ٹیک اور فائزر نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے کووڈ 19 سے بچنے کے لیے مشترکہ طور پر جو ویکسین تیار کی ہے وہ تجرباتی عمل میں 90 فیصد تک کارگر اور موثر ثابت ہوئی ہے۔ اس کے بعد ہی یورپی یونین نے 30 کروڑ ویکسین کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے بائیوٹیک کے ساتھ ایک معاہد ے کا اعلان کیا تھا۔ ایک مریض کو ایسے ٹیکے کی دو خوراک کی ضرورت ہوگی۔
ص ز / ج ا
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔