جو بائیڈن کے آخری اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے اہم نکات
8 مارچ 2024
امریکی صدر نے انتخابات سے قبل اپنے آخری اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں ملکی اور بین الاقوامی امور پر رائے کا اظہار کیا۔ انہوں نے غزہ میں فائر بندی پر زور دیتے ہوئے اسرائیل سے انسانی امداد پر 'سودے بازی نہ کرنے' کی اپیل کی۔
اشتہار
امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کے روز کیپیٹل ہل میں ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں، فائر بندی کی کوششوں، روس اور یوکرین جنگ سمیت امریکہ میں معاشی اور ٹیکس اصلاحات نیز نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے جمہوریت اور آزادی اظہار پر زور دیا اور کہا کہ ہمیں امریکہ کی تاریخ میں ایک غیر یقینی لمحے کا سامنا ہے۔ انہوں نے سابق صدر لنکن اور اپنی حکومت کی پالیسی اور ترجیحات بیان کرتے ہوئے اپنے ممکنہ مخالف صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر بالواسطہ تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد کانگریس کو جگانا ہے اور امریکی عوام کو خبردار کرنا ہے کہ یہ کوئی معمولی لمحہ بھی نہیں ہے۔
اشتہار
اسرائیل 'انسانی امداد پر سودے بازی نہ کرے'
اسٹیٹ آف دی یونین کے اپنے آخری خطاب میں اسرائیل اور حماس پر غزہ میں چھ ہفتوں کی فائر بندی پر زور دیتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ اسرائیل انسانی امداد کو 'سودے بازی‘ کے طور پر استعمال نہیں کر سکتا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بائیڈن کا کہنا تھا، "میں اسرائیل کی قیادت سے یہ کہتا ہوں کہ انسانی امداد ایک ثانوی آپشن یا سودے بازی نہیں ہو سکتی۔ معصوم جانوں کا تحفظ اور جانیں بچانا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔"
بائیڈن نے کہا کہ اسرائیل کے پاس سات اکتوبر کو ہونے والے بڑے حملے کے جواب میں غزہ کی پٹی پر کنٹرول کرنے والی حماس پر حملہ کرنے کا جواز تھا، تاہم غزہ پر پڑنے والے اثرات "دل دہلا دینے والے" ہیں۔
بائیڈن نے حماس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "عسکریت پسند قیدیوں کو رہا کر کے آج ہی اس تنازعے کو ختم کر سکتے ہیں۔" انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اپنی حمایت کا بھی اعادہ کیا اور کہا، "میں یہ (دو ریاستی حل) اسرائیل کے تاحیات حامی کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔ اسرائیل کے ساتھ اس سے زیادہ مضبوط ریکارڈ کسی (اور امریکی رہنما) کا نہیں ہے۔ میں یہاں آپ میں سے ہر ایک کو چیلنج کرتا ہوں۔"
روس یوکرین جنگ
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ روس اور یوکرین جنگ میں امریکہ کییف کے ساتھ کھڑا ہے۔ انہوں نے کہا، "ہم یوکرین کو ہتھیاروں اور خوراک کی فراہمی جاری رکھیں گے۔ یوکرین ہم سے ہمارے فوجی نہیں مانگ رہا، نہ ہی امریکی فوجیوں کی وہاں ضرورت ہے۔ ہم یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔"
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ "پوٹن کے لیے ہمارا پیغام سادہ ہے کہ ہم نہیں جھکیں گے، یوکرین کے بارے میں ہمارا فیصلہ واضح ہے کہ ہم کسی کے سامنے نہیں جھکیں گے۔"
امریکی صدر نے کہا کہ امریکہ نیٹو کے بانیوں میں سے ہے اور آج "ہم نے پہلے کے مقابلے میں نیٹو کو زیادہ مضبوط کیا ہے۔"
بائیڈن نے کہا کہ ان کی حکومت نے گزشتہ برس عسکری اتحاد میں فن لینڈ کی شمولیت کا خیر مقدم کیا تھا اور آج سوئیڈن نے گروپ میں باضابطہ طور پر شمولیت اختیار کر لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "سویڈن اب اس تنظیم کا رکن ہے، ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔"
ٹرمپ پر تنقید
صدارتی انتخابات میں اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے جو بائیڈن نے جنوری 2020 میں کیپیٹل ہل کی عمارت پر حملے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر نے اپنے حامیوں کو جمہوریت پر حملے کے لیے اکسایا لیکن سیاسی افراتفری کے لیے امریکہ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، "تاریخ دیکھ رہی ہے، ہماری نسلیں پڑھیں گی کہ ہم نے کیا کیا، ہم ہر صورت جمہوریت کا تحفظ کریں گے۔"
ملکی معیشت کے حوالے سے جو بائیڈن نے کہا کہ "جب میں اقتدار میں آیا تو امریکہ کورونا وبا اور معاشی بحران کا شکار تھا۔ لاکھوں امریکیوں کی جان گئی اور میرے پیش رو ناکام ہو گئے تھے۔ لیکن میری انتظامیہ نے کورونا کا بہادری سے مقابلہ کیا اور معیشت کو مستحکم کیا۔"
انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ اس بار بھی صدرارتی انتخابات جیتیں گے۔
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔