’جو ہتھیار اٹھا سکتا ہے، اٹھا لے‘: روس نواز یوکرائنی رہنما
19 فروری 2022
مشرقی یوکرائن میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے رہنما اور نام نہاد ’جمہوریہ ڈونیٹسک‘ کے مرکزی لیڈر ڈینس پُوشی لین نے تمام ریزرو فوجیوں کو حرکت میں آنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے، ’’جو کوئی بھی ہتھیار اٹھا سکتا ہے، اٹھا لے۔‘‘
اشتہار
یوکرائن کے دارالحکومت کییف سے ہفتہ انیس فروری کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس بحران زدہ مشرقی یورپی ملک میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے رہنما ڈینس پُوشی لین نے آج اس خطے کے تمام ریزرو فوجیوں کو حرکت میں آ جانے کا حکم دے دیا۔ علیحدگی پسندوں کے اس رہنما نے ٹیلیگرام نیوز چینل پر اپنے ایک تحریری پیغام میں کہا کہ جنگ کے 'شدید تر‘ خطرے کی وجہ سے اب ضروری ہو گیا ہے کہ تمام ممکنہ عسکری صلاحیتوں کو حرکت میں لایا جائے۔
اپنے اس تحریری حکم میں عسکری تیاریوں کے لیے 'جنرل موبیلائزیشن‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے ڈینس پُوشی لین نے لکھا، ''میں جمہوریہ ڈونیٹسک کے ان تمام مردوں کو، جو اپنے ہاتھوں میں کوئی بھی ہتھیار اٹھا سکتے ہیں، یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے ہتھیار اٹھا لیں، تاکہ وہ اپنے خاندانوں، بچوں، بیویوں اور ماؤں کی حفاظت کر سکیں۔‘‘
مشرقی یوکرائن کے اس علیحدگی پسند رہنما کے مخاطب اس روس نواز خطے کے تمام ریزرو فوجی تھے۔
یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم او ایس سی ای نے، جو مشرقی یوکرائن میں فائر بندی کی نگرانی کرتی ہے، کہا ہے کہ اس علیحدگی پسند خطے میں سیزفائر کی خلاف ورزیوں میں کافی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ روس نواز باغیوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ڈونیٹسک کے علاقے میں گولہ باری سے پانی کی ایک پائپ لائن کو کافی نقصان پہنچا ہے۔
مشرقی یوکرائنی علیحدگی پسندوں کے رہنما نے اپنا تازہ ترین بیان ایک ایسے وقت پر دیا ہے جب اس خطے میں ایک نئی جنگ کی آگ بھڑک اٹھنے کے خدشات گزشتہ کئی ہفتوں سے مسلسل بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔
اشتہار
ممکنہ جنگ روکنے کی کوششیں
امریکا اور یورپی ممالک کے رہنما پچھلے کئی ہفتوں سے مسلسل یہ کوششیں کر رہے ہیں کہ مشرقی یوکرائن میں دوبارہ جنگ شروع نہ ہو۔ اس مقصد کے تحت فرانسیسی صدر ماکروں اور جرمن چانسلر شولس ماسکو میں روسی صدر پوٹن سے اپنی حالیہ ملاقاتوں میں تفصیلی بات چیت بھی کر چکے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ روس کسی بھی بہانے یوکرائن پر فوجی حملہ کر سکتا ہے اور اگر اس نے ایسا کیا تو اسے اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔
دوسری طرف یوکرائنی علیحدگی پسندوں کے رہنما کا بیان ایک بار پھر یہ ظاہر کرنے کی کوشش ہے کہ مشرقی یوکرائن میں جنگ کا خطرہ شدید تر ہو چکا ہے اور وہاں تشدد بڑھتا جا رہا ہے۔
مغربی دفاعی ماہرین کے بقول یہی وہ ممکنہ بہانہ ہو سکتا ہے، جس کا سہارا لے کر روس اپنے ہمسایہ ملک یوکرائن پر فوجی چڑھائی کر سکتا ہے۔
یوکرائن میں اسکول کے بچوں کی ممکنہ روسی حملے کے خلاف تیاری
03:03
مشرقی یوکرائن سے عورتوں اور بچوں کی روس منتقلی
ڈینس پُوشی لین مشرقی یوکرائن میں روس نواز علیحدگی پسندوں کی نام نہاد 'جمہوریہ ڈونیٹسک‘ کی حکومت کے سربراہ ہیں اور ان کے تازہ ترین بیان سے قبل اس خطے میں ایک اور بڑی پیش رفت بھی دیکھنے میں آنے لگی تھی۔
یہ پیش رفت علیحدگی پسندوں کے زیر قبضہ ڈونیٹسک اور لوہانسک نامی علاقوں سے خواتین اور بچوں کی ہمسایہ ملک روس کے سرحدی علاقوں میں منتقلی کا عمل تھا۔ یہ منتقلی بظاہر اس لیے شروع کی گئی ہے کہ ممکنہ جنگ کی صورت میں اس خطے کی عورتیں اور بچے محفوظ رہیں۔
م م / ع ت (اے پی، ڈی پی اے)
کریمیا کا بحران: روسی اقدام اور اُس کے نتائج
روس اور کریمیا کی ماسکو نواز حکومت نے بڑی ہی تیز رفتاری کے ساتھ اس جزیرہ نما کو وفاق روس کا حصہ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس روسی اقدام کو بھی برسلز میں منعقدہ یورپی یونین کی سربراہ کانفرنس میں زیر بحث لایا گیا ہے۔
تصویر: Reuters
یورپی یونین کی سربراہ کانفرنس اور یوکرائن
یورپی یونین کی برسلز میں منعقدہ سربراہ کانفرنس میں روس کے خلاف مزید پابندیوں کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جمعہ اکیس مارچ کو ختم ہونے والی اس دو روزہ سربراہ کانفرنس میں یورپی یونین نے کریمیا میں روسی اقدام کے خلاف ایک تعزیری اقدام کے طور پر روس کے ساتھ اپنی اگلی سربراہ کانفرنس منسوخ کرنے کا بھی اعلان کیا۔
تصویر: REUTERS
عزائم پر برق رفتاری سے عملدرآمد
روس نے بحیرہء اسود کے جزیرہ نما کریمیا پر اپنی عسکری قوت بڑھانا شروع کر دی ہے۔ بدھ اُنیس مارچ کو روس نواز قوتوں نے یوکرائن کے کئی ایک فوجی اڈوں پر کنٹرول حاصل کر لیا، جیسے کہ مثلاً بندرگاہی شہر سیواستوپول میں، جہاں یہ تصویر اتاری گئی۔
تصویر: Reuters
آئین سے ہم آہنگ اقدام
ایک جانب روسی فوجی پیریوالنوئے میں واقع پوکرائن کے فوجی اڈے میں داخل ہو رہے تھے، دوسری طرف روسی آئینی عدالت کریمیا کو وفاق روس کا حصہ بنانے کے معاہدے کو آئین سے ہم آہنگ قرار دے رہی تھی۔ بین الاقوامی سطح پر اس معاہدے کو تسلیم نہیں کیا جا رہا تاہم روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اس معاہدے پر اٹھارہ مارچ منگل کو ہی اپنے دستخط ثبت کر دیے تھے۔ روسی پارلیمان کے دونوں ایوان بھی اس کی توثیق کر چکے ہیں۔
تصویر: Dan Kitwood/Getty Images
خاموش پسپائی
خبر رساں اداروں کے مطابق یوکرائن کے ایک میجر نے یہ بتایا کہ ’روسی فوجی یہاں پہنچ گئے اور اُنہوں نے ہم سے یہ اڈہ چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا‘۔ اس تصویر میں ایک فوجی افسر نوووسیرنے کے اڈے سے جاتا نظر آ رہا ہے۔ اگرچہ یوکرائن نے کریمیا سے اپنے فوجی واپس بلانے کا اعلان کیا ہے لیکن کہا ہے کہ فوج کو چوکنا رہنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔
تصویر: FILIPPO MONTEFORTE/AFP/Getty Images
شاندار ہال میں متاثر کن آمد
اٹھارہ مارچ کو ولادیمیر پوٹن نے کریملن کے شاندار گیورگ ہال میں ایوانِ زیریں دُوما کے نمائندوں اور روسی وفاق کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کریمیا کو روس کا ’اٹوٹ انگ‘ قرار دیا اور مغربی دنیا پر الزام عائد کیا کہ اُس نے یوکرائن میں ’ایک سرخ لائن‘ عبور کی ہے۔
تصویر: Reuters
پہلے بیانات اور فوراً بعد عملی اقدامات
پوٹن کے بیانات کے فوراً بعد عملی اقدامات شروع کر دیے گئے۔ کریملن میں ایک شاندار تقریب میں روس میں کریمیا کی شمولیت کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس تصویر میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ساتھ کریمیا کی ماسکو نواز حکومت کے سربراہ سیرگئی آکسیونوف (انتہائی بائیں جانب)، کریمیا کی پارلیمان کے ترجمان ولادیمیر کونسٹانٹینوف (بائیں سے دوسرے) اور سیواستوپول کے میئر الیکسی شالی (دائیں) نظر آ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters
امیدیں اور توقعات
کریمیا میں ایک ساتھ مایوسی بھی ہے اور جشن بھی۔ جہاں یوکرائن کے فوجی اور اُن کے اہلِ خانہ اس جزیرہ نما سے رخصت ہو رہے ہیں، وہاں کریمیا کے دیگر باسی روسی کے ساتھ الحاق کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ سیواستوپول میں جمع ایک روس نواز شہری نے کہا، ’مجھے یقین ہے کہ ہماری زندگی بہتر ہو جائے گی‘۔
تصویر: Reuters
الحاق کی حمایت میں تالیاں
کریمیا میں سینکڑوں افراد نے کریمیا کو روس کا حصہ بنانے سے متعلق پوٹن کی تقریر کو سنا اور خوشی اور جوش و جذبے کے ساتھ تقریر کے بعد ہونے والے آتش بازی کے مظاہرے کو دیکھا۔ اس تصویر میں لوگ کریمیا کے شہر زیمفروپول میں بڑی اسکرین پر یہ مناظر دیکھ رہے ہیں۔ اتوار سولہ مارچ کو ہونے والے ریفرنڈم میں کریمیا کے 97 فیصد شہریوں نے روس کے ساتھ الحق کے حق میں رائے دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
قوم کی رَگ پر ہاتھ
پوٹن نے کریمیا میں پیش قدمی کرتے ہوئے غالباً روسی عوام کے ایک حصے کے دلی خواہش پوری کر دی ہے۔ قوم کے نام پوٹن کے خطاب کے بعد متعدد شہروں میں اُن کے لاکھوں حامی جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ ماسکو میں اتری اس تصویر میں بھی پوٹن کے حامی جشن مناتے نظر آ رہے ہیں۔
تصویر: DMITRY SEREBRYAKOV/AFP/Getty Images
’میدان‘ کے سرگرم کارکن
یوکرائن کے دارالحکومت کییف کا مرکزی علاقہ ’میدان‘ گزشتہ کئی مہینوں سے صدر وکٹر یانوکووچ کی حکومت کے خلاف جدوجہد کا مرکز بنا رہا۔ اُس روز بھی، جس روز کریمیا کی یوکرائن سے علیحدگی یقینی نظر آ رہی تھی، اس مقام پر لوگ جمع تھے۔
تصویر: Spencer Platt/Getty Images
یورپی یونین میں شمولیت کی جانب ایک قدم
’میدان‘ میں چند مہینے پہلے کا ایک منظر، جس میں ’یورپی مستقبل کے لیے‘ نامی تحریک کے کارکن یورپی یونین میں یوکرائن کی شمولیت کے موضوع پر ایک ریفرنڈم کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اب یہ منزل قریب آ گئی ہے۔ برسلز منعقدہ یورپی یونین سربراہ کانفرنس کے موقع پر یونین اور یوکرائن کے درمیان قریبی تعاون کے علامتی اعتبار سے ایک نہایت اہم سمجھوتے پر دستخط ہوئے ہیں۔