جو ملک بدری سے بچنے کے لیے دھوکا دے، اس کے لیے سزا کی تجویز
شمشیر حیدر17 جولائی 2016
جرمنی میں ہزاروں تارکین وطن ایسے ہیں جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں لیکن سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث انہیں جرمنی سے ملک بدر کر کے ان کے آبائی ملکوں میں واپس نہیں بھیجا جا سکتا۔
اشتہار
جرمنی کے کثیر الاشاعت جریدے ’ڈیئر اشپیگل‘ کی اتوار کی اشاعت میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق تارکین وطن کو ملک بدر کرنے میں پیش آنے والی دشواریوں کی تفصیلات جرمنی کے وفاقی اور صوبائی وزرائے داخلہ کے لیے تیار کردہ ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہیں۔
اس رپورٹ میں جرمن حکام نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ دستاویزات نہ رکھنے والے پناہ گزینوں کو جرمنی سے ملک بدر کرنے کی صورت میں ’قانون کی بالادستی‘ متاثر ہو سکتی ہے۔
اس رپورٹ کے مرتب کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پناہ کے متلاشی افراد جان بوجھ کر اور حکمت عملی کے تحت جرمن حکام کو اپنی شناختی اور سفری دستاویزات مہیا نہیں کرتے تاکہ انہیں واپس اپنے وطنوں کی جانب نہ بھیجا جا سکے۔ حکام کے مطابق تارکین وطن کی اسی حکمت عملی کی وجہ سے انہیں ملک بدر کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
مہاجر خاندان افغان، مسئلہ مشرقی، مسئلہ مغرب میں
03:23
اعداد و شمار کے مطابق اس وقت جرمنی میں 33 ہزار سے زائد ایسے تارکین وطن ہیں جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں تمام مراحل میں مسترد کی جا چکی ہیں لیکن دستاویزات نہ ہونے کے باعث انہیں ابھی تک جرمنی سے نہیں نکالا جا سکا۔
ایسے افراد کی متبادل شناختی اور سفری دستاویزات تیار کرنے میں بھی دشواری پیش آتی ہے کیوں کہ تارکین وطن کی اکثریت اپنی قومیت اور ذاتی کوائف کے بارے میں معلومات بھی فراہم نہیں کرتے۔ وزارت داخلہ کے لیے تیار کردہ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ تارکین وطن کی اس حکمت عملی کے باعث جرمنی کے موجودہ ’ملکی قوانین مکمل طور پر ناکام ہو جانے کا خدشہ ہے‘۔
ماہرین نے وفاقی وزارت داخلہ کو تجویز پیش کی ہے کہ ذاتی کوائف نہ فراہم کرنے والے اور غلط بیانی سے کام لینے والے پناہ گزینوں کے کیسوں کا جائزہ لینے کے لیے ماہرین کی خدمات لی جائیں اور ایسے تارکین وطن کو سخت سزائیں دی جائیں۔
جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر حالیہ ہفتوں کے دوران بارہا کہہ چکے ہیں کہ ایسے تارکین وطن کو جلد از جلد ملک بدر کیا جائے گا جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔ تاہم اس برس کے پہلے پانچ ماہ میں صرف ساڑھے گیارہ ہزار تارکین وطن کو ہی اپنے وطنوں کی جانب واپس بھیجا جا سکا ہے۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔