1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جو کووچ نے کووڈ فارم سے متعلق غلطی تسلیم کر لی

12 جنوری 2022

جوکووچ نے قرنطینہ اصولوں کو توڑنے کا اعتراف کیا ہے اور کہا کہ ان کے ایجنٹ نے فارم پر کرنے میں "غیر دانستہ غلطی "کے لیے معذرت بھی کی ہے۔ آسٹریلوی حکام اب بھی اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا انہیں ملک بدر کیا جائے یا نہیں۔

Australien | Novak Djokovic beim Training in Melbourne
تصویر: James Ross/AAP/dpa/picture alliance

سربیا سے تعلق رکھنے والے اسٹار ٹینس کھلاڑی نوواک جوکووچ نے 12 جنوری بدھ کے روز یہ بات تسلیم کی ہے کہ آسٹریلیا میں داخلے کے لیے دستاویزات پر ان کی جانب سے ایک غلط اطلاع فراہم کر دی گئی تھی۔ ان کی اس غلطی سے ملک میں داخلے کے لیے جو فی الوقت سخت قوانین ہیں اس کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

جوکووچ کے آسٹریلیا پہنچنے کے بعد آسٹریلوی سرحدی فورس کے اہلکاروں نے ان کا ویزا منسوخ کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ گزشتہ کئی روز سے میلبرن میں امیگریشن حکام کی تحویل میں ہیں اور آسٹریلوی حکومت اب بھی اس بات پر غور کر رہی ہے کہ آیا انہیں اس کی وجہ سے ملک بدر کیا جائے یا نہیں۔

حالانکہ جوکووچ نے حکام کے ویزا منسوخی کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا تھا اور آسٹریلیا کی ایک عدالت نے اسٹار ٹینس کھلاڑی کا ویزا منسوخ کرنے کے حکومتی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ تاہم انہوں نے انٹری فارم پر کووڈ ضابطوں سے متعلق غلط معلومات فراہم کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

جوکووچ نے غلطی کے بارے میں کیا کہا؟

 جوکووچ  نے اپنے انٹری فارم پر یہ معلومات فراہم کی تھیں کہ آسٹریلیا پہنچنے سے 14 دن پہلے انہوں نے کہیں کا کوئی سفر نہیں کیا تھا، جبکہ  حقیقت یہ ہے کہ اسٹار کھلاڑی کو اسی دوران اسپین اور ان کے آبائی علاقے سربیا میں ہونے والے کئی پروگراموں میں باقاعدہ شرکت کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

جو کووچ نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں اپنی ان سرگرمیوں کے بارے میں وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ اس سلسلے میں بعض ''غلط معلومات کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔''  ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پروگرام میں شرکت کے بعد اپنا ٹیسٹ کروایا تھا اور اپنے آپ کو الگ تھلگ بھی رکھا۔

انہوں نے کہا، ''ایک انٹرویو کے بعد جب میں مطلوبہ مدت کے لیے الگ تھلگ رہنے کے لیے گھر گیا، تو غور کرنے پر معلوم ہوا، اس فیصلے میں بعض خامیاں تھیں اور میں اس بات کو تسلیم کرتا ہو کہ مجھے اپنے اس کمٹمنٹ کو دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت تھی۔''

تصویر: WILLIAM WEST/AFP

جوکووچ کا کہنا ہے کہ ان کا سفری فارم ان کی معاون ٹیم نے بھرا تھا، اور یہ کہ ان کے، ''ایجنٹ نے غلط باکس کو نشان زد کرنے پر انتظامی غلطی کے لیے مخلصانہ معذرت بھی پیش کی ہے۔'' انہوں نے لکھا، ''یہ ایک انسانی غلطی تھی اور یقیناً دانستہ طور پر نہیں کی گئی۔''

جوکووچ نے مزید کہا کہ ان کی ٹیم نے اس معاملے کی مزید وضاحت کے لیے آسٹریلوی حکومت کو اضافی معلومات فراہم کی ہیں۔

آسٹریلیا میں انٹری فارم پر جھوٹی یا گمراہ کن معلومات دینا ایک جرم ہے، جس کی زیادہ سے زیادہ سزا 12 ماہ قید یا پھر  6,600 آسٹریلوی ڈالر کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔ اس کے سبب قصوروار کا ویزا بھی منسوخ کیا جا سکتا ہے۔

کیا جوکووچ آسٹریلین اوپن کھیل سکیں گے؟

جوکووچ کو پیر کے روز اس وقت نظر بندی سے رہا کیا گیا جب ایک جج نے ان کے ویزا کی منسوخی کو ''غیر معقول'' قرار دیا۔ جج کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے لیے حکام نے انہیں وکلاء اور ٹینس حکام سے مشورہ کرنے کا وقت نہیں دیا۔

تاہم آسٹریلیا کے امیگریشن وزیر ایلکس ہاک کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اب بھی جوکووچ کا ویزا منسوخ کر سکتے ہیں۔ اگر انہیں ملک بدر کیا گیا تو وہ 17 جنوری سے شروع ہونے والے آسٹریلین اوپن ٹینس ٹورنامنٹ میں نہیں کھیل سکیں گے۔

ٹینس امور کے ماہر اسٹیو پیئرس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ اگر حکومت جوکووچ کا ویزا منسوخ کرنے کے لیے ایگزیکٹو پاور کا استعمال کرتی ہے، تو اس کے نتیجے میں ان پر ملک سے تین سال کی پابندی عائد کر دی جائے گی۔

واضح رہے کہ نوواک جوکووچ کووڈ کی ویکیسن کے خلاف ہیں۔ اپریل سن 2020 میں انہوں نے کھلے عام اس امر کا اظہار کرتے ہوئے ویکیسن لگوانے سے انکار کر دیا تھا۔

جوکووچ دنیائے ٹینس کے ایک بہترین کھلاڑی تو ہی ہیں لیکن ان کی فٹنس بھی زبردست ہے۔جوکووچ20 گرینڈ سلام ٹائٹل اپنے نام کر چکے ہیں اور اگر انہیں اس بار کھیلنے کی اجازت ملی اور اس مرتبہ بھی وہ کامیاب ہو گئے تو وہ یہ باوقار اعزاز سب سے زیادہ مرتبہ اپنے نام کرنے والے بن جائیں گے۔

ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)

پولیو سے متاثرہ، وہیل چیئر ٹیبل ٹینس چمپیئن

02:27

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں