اسلام آباد: ’دھواں چھوڑنے والی گاڑی شہر میں داخل نہیں ہو گی‘
14 دسمبر 2025
اسلام آباد میں آلودگی کی سطح کو خطرناک حد تک پہنچا دینے کا سبب گاڑیوں کا دھواں بنا ہے۔ اس کے خلاف سخت اقدامات کے لیے حکام کی طرف سے رواں ماہ جس سخت کریک ڈاؤن کا آغاز کیا گیا۔ لاہور سے آنے والے ایک ٹرک ڈرائیور محمد افضل کو پولیس نے اچانک روک لیا اور ان کے ٹرک سے خارج ہونے والے دھوئیں کی وجہ سے ان پر ایک ہزار روپے کا جرمانہ لگا دیا گیا۔
کریک ڈاؤن اور متاثرین کا احتجاج
ٹرک ڈرائیور محمد افضل نے پولیس کی کارروائی پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''یہ ظلم ہے! گاڑی تو ابھی لاہور میں ٹھیک کروائی ہے۔ انہوں نے خود میری ٹرک کے ایکسلریٹر کو دبایا اور اب دھواں میرے کھاتے میں؟‘‘
اسلام آباد میں لگائے گئے یہ خصوصی چیک پوائنٹس دراصل اُس بڑے کریک ڈاؤن کا حصہ ہیں جو شہر میں بڑھتی ہوئی اسموگ کو روکنے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔ سردیوں کے مہینوں میں ہوا کا دباؤ آلودگی کو زمین کے قریب دھکیل دیتا ہے اور اس بار صورتحال معمول سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔
پاکستان کی ماحولیاتی ایجنسی (EPA) سے منسلک ڈاکٹر ضیغم عباس کے مطابق، ''ہم نے سب کو پہلے ہی خبردار کر دیا تھا اب جو گاڑی دھواں چھوڑے گی وہ شہر میں داخل نہیں ہوگی۔‘‘
گاڑیوں کی چیکنگ کرنے والے ٹیکنیشن ولید احمد نے صورتحال کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا،'' انسان کی طرح گاڑی کی بھی ایک زندگی ہوتی ہے اور وقت گزرنے کے بعد وہ زہریلا دھواں چھوڑنے لگتی ہے۔‘‘
دارالحکومت کی نئی حقیقت
اسلام آباد روایتی طور پر ہرے بھرے جنگلات، کھلی سڑکوں اور صاف ہوا کے لیے مشہور تھا۔ مگر اب یہی شہر آلودگی اور اسموگ کے حوالے سے لاہور اور کراچی کے قریب پہنچ چکا ہے۔
اس ماہ اس شہر میں پہلے ہی سات دن ایسے گزرے ہیں جب فضائی آلودگی 'انتہائی غیر صحت بخش‘ سطح تک جا پہنچی۔ PM2.5 ذرات کی مقدار WHO کی مقرر کردہ حد سے 10 گنا زیادہ ریکارڈ کی گئی اور یہ مقدار خطرے کی گھنٹی ہیں۔
ریسرچ رپورٹس بتاتی ہیں کہ اسلام آباد کی 53 فیصد آلودگی صرف ٹرانسپورٹ سیکٹر سے آتی ہے۔ یعنی یہ اسموگ کسی فیکٹری کا دھواں نہیں، بلکہ ہزاروں گاڑیوں کے روزانہ کے سفر کا نتیجہ ہے۔
شہری بے چین، حکومت فکر مند
ای پی اے کی سربراہ نازیہ زیب کے مطابق سات دسمبر کو شروع ہونے والے کریک ڈاؤن کے پہلے ہفتے میں 300 سے زیادہ جرمانے ہو چکے ہیں جبکہ 80 گاڑیاں قبضے میں لے لی گئی ہیں۔ شہر میں ایسے اسٹیشن بھی بنا دیے گئے ہیں جہاں سے گاڑیوں کو 'گرین اسٹیکر‘ دیا جاتا ہے یعنی فضا کے لیے کم نقصان دہ ہونے کی سند کے طور پر۔
51 سالہ افتخار سرور نے اپنی گاڑی کا معائنہ کرواتے ہوئے کہا، ''میں کبھی صبح دوائی نہیں لیتا تھا، لیکن اب الرجی نے زندگی بدل دی ہے۔"
بہت سے شہریوں کا ماننا ہے کہ یہ اقدامات ضروری ، لیکن ناکافی۔
ماہر بشریات سلمان اعجاز نے دل سوز جملہ کہا، ''یہ وہ اسلام آباد نہیں جہاں میں 20 سال پہلے آیا تھا۔ اگر میری بیٹی مجھ سے صاف ہوا کا مطالبہ کرے تو میں کیا جواب دوں؟"
ادارت: افسر اعوان