جڑے ہوئے سروں والی جڑواں بنگلہ دیشی بچیوں کی حالت اب مستحکم
10 اگست 2019
ان جڑواں بنگلہ دیشی بچیوں کی حالت اب کافی مستحکم ہے، جن کے آپس میں جڑے ہوئے سروں کو آپریشن کر کے علیحدہ کر دیا گیا تھا۔ ان کم عمر بہنوں کا ایک طویل آپریشن گزشتہ ہفتے ہنگری اور بنگلہ دیش کے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے کیا تھا۔
رابعہ اور رقیہ کی اس سال جنوری میں ڈھاکا کے ایک ہسپتال میں ان کے والد کے ساتھ لی گئی ایک تصویرتصویر: Getty Images/AFP/R. Asad
اشتہار
بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا سے ہفتہ دس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ان دونوں جڑواں بہنوں کی عمر تین سال ہے اور ان کے نام رابعہ اور رقیہ ہیں۔ ان دونوں بچیوں کے سر دوران حمل جنین کی نشو ونما سے متعلق ایک نہایت ہی کم نظر آنے والی بیماری کے باعث آپس میں جڑ گئے تھے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ بیماری اتنا کم نظر آنے والی ہے کہ ان بنگلہ دیشی بہنوں کی طرح کے جڑواں بچوں کی پیدائش کے واقعات کی شرح پانچ یا چھ ملین میں ایک ہوتی ہے۔
تیس گھنٹے تک انتہائی پیچیدہ آپریشن
رابعہ اور رقیہ کے سروں کو علیحدہ کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے ان کا جو حتمی آپریشن کیا گیا تھا، اس میں ہنگری کے 35 اور بنگلہ دیشن کے 100 سے زائد ڈاکٹر شریک ہوئے تھے۔ یہ آپریشن 30 گھنٹے تک جاری رہا تھا۔ ڈھاکا کے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں کیے جانے والے اس آپریشن کو ڈاکٹروں کی ٹیم نے 'آپریشن فریڈم‘ کا نام دیا تھا۔
اس بہت طویل اور طبی حوالے سے معجزہ قرار دیے جانے والے آپریشن کے دوران رابعہ اور رقیہ کے صرف سر ہی نہیں بلکہ ان کے دماغ بھی ایک دوسرے سے علیحدہ کر دیے گئے تھے۔ اس بارے میں ان ڈاکٹروں کی ٹیم کی طرف سے دس اگست کو کہا گیا کہ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ان دونوں کم سن بہنوں کی صحت اب مستحکم ہے۔
کُل 46 آپریشن
رابعہ اور رقیہ کے سروں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کے لیے مرحلہ وار طبی آپریشنوں کا سلسلہ گزشتہ برس شروع کیا گیا تھا۔ ان بچیوں کا حتمی آپریشن کرنے والی طبی ٹیم کے سربراہ اور ہنگری کی ایک غیر سرکاری میڈیکل چیریٹی ADPF کے بانی گیرکیلی پاتاکی نے کہا، ''ہمیں بہت خوشی ہے کہ حتمی طور پر ایک دوسرے سے علیحدہ کر دی گئی ان دونوں جڑواں بہنوں کی طبی حالت اب مستحکم ہے۔ لیکن ایسے آپریشن چونکہ بہت پیچیدہ ہوتے ہیں، اس لیے یہ خدشہ اب تک موجود ہے کہ انہیں شاید کسی بھی وقت کسی مشکل طبی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘
ان دونوں بنگلہ دیشی بچیوں کے مجموعی طور پر دو بڑے نیوروسرجیکل اور 44 پلاسٹک سرجری آپریشن کیے جا چکے ہیں۔ ان کے فائنل آپریشن سے پہلے ڈاکٹروں نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اس بات کا امکان صرف 50 فیصد تھا کہ یہ دونوں بہنیں جسمانی اور دماغی طور پر ایک دوسرے سے علیحدہ کیے جانے کے بعد زندہ بھی رہیں۔
م م / ش ح / اے ایف پی
چینی کے استعمال کے آٹھ بڑے نقصانات
چینی ایک ذائقہ دار شے ہوتے ہوئے بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ دنیا بھر میں اس کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے طبی مسائل میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ چینی کے استعمال کے آٹھ بڑے نقصانات۔
تصویر: Colourbox
موٹاپے کی بڑی وجہ
چینی جسم کے اندر داخل ہوتے ہی دو سے پانچ گنا تیزی سے پہلے سے موجود چربی کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ چینی کے ذریعے ہم چربی والے خلیات کو براہ راست غذا فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ چینی جگر کو بھی متاثر کرتی ہے اور اس کی زیادتی سے کوئی بھی شخص ذیابیطس ٹائپ ٹو کا مریض بھی بن سکتا ہے۔
تصویر: Colourbox
میٹھا بھی ایک نشہ
فربہ افراد کے دماغ پر بھی چینی بالکل الکوحل یا دیگر نشہ آور اشیاء کی طرح اثر انداز ہوتی ہے اور اس سے ڈوپامِین زیادہ مقدار میں خارج ہونے لگتا ہے۔ اگر آپ دس دن تک ایسے مشروبات اور کھانوں سے پرہیز کرنے کی کوشش کریں، جن میں چینی کی وافر مقدار شامل ہوتی ہے تو دو دن بعد ہی آپ کا سر درد کرنا شروع کر دے یا آپ چڑچڑے ہو جائیں یا پھر آپ کا دل میٹھا کھانے کو چاہے تو سمجھ لیجیے کہ آپ کو چینی کی لت پڑ چکی ہے۔
تصویر: Colourbox
چینی صحت مند نظام ہضم کے لیے تباہ کن
انسانی نظام ہضم میں پائے جانے والے صحت مند بیکٹیریا نہ صرف خوراک ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ وہ معدے اور آنتوں کو ان پر حملہ کرنے والے جرثوموں سے بھی بچاتے ہیں۔ نظام ہضم میں جتنی زیادہ شکر موجود ہو گی، اتنا ہی زیادہ مختلف بیماریوں کا سبب بننے والے بیکٹیریا کو افزائش کا موقع ملے گا۔ جسم میں طفیلی جرثوموں کو میٹھا بہت راس آتا ہے۔ ریح، قبض اور اسہال کی ایک بڑی وجہ یہی بہت زیادہ چینی بنتی ہے۔
تصویر: Colourbox
مدافعتی نظام بھی کمزور
چینی کا بہت زیادہ استعمال جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور کر دیتا ہے۔ چینی کھاتے ہی مدافعتی نظام کی کارکردگی چالیس فیصد تک کم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ چینی وٹامن سی کی دشمن ہے اور خون کے سفید خلیوں کو بیکٹیریا اور وائرس کے خلاف لڑنے کے لیے اسی وٹامن سی کی ضرورت ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چینی سرطان کا ممکنہ باعث بھی
سرطان کے خلیات کو پروان چڑھنے کے لیے بہت زیادہ چینی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں بائیو کیمسٹری کے ماہرین کا خیال ہے کہ چینی کی بہت زیادہ مقدار سرطان کا باعث بن سکتی ہے۔ اس بارے میں ہارورڈ یونیورسٹی کی بھی ایک طبی تحقیق موجود ہے۔
تصویر: Colourbox
میٹھے کی وجہ سے بڑھاپے کی تیز رفتار آمد
بہت زیادہ میٹھا کھانے سے زیادہ تر انسانوں میں بڑھاپے کی تیز رفتار آمد کا سبب وہ عمل بنتا ہے، جسے گلائیکیشن کہتے ہیں۔ اس سے مراد جلد کے خلیات میں بہت زیادہ میٹھے کا جمع ہونا ہے۔ اس طرح جلد کے نیچے شکر کے سالموں کے جمع ہونے سے جلد سخت ہو جاتی ہے اور اس طرح جلد کے خلیات میں سے نقصان دہ مادے بھی خارج نہیں ہو پاتے اور جلد تیزی سے بوڑھا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
تصویر: Colourbox
جارحانہ رویے کی وجہ
چینی کے شوقین افراد میں جارحانہ رویہ یا جلد غصہ آ جانے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ چینی توجہ کی کمی کی وجہ سے بچوں میں پیدا ہونے والے مرض Attention deficit hyperactivity disorder کا سبب بھی بنتی ہے۔ چینی کی بہت زیادہ مقدار کی بناء پر بچے کسی بھی کام پر مکمل توجہ نہیں دے پاتے اور پریشان اور بے چپن بھی رہتے ہیں۔
تصویر: Colourbox
یادداشت کی کمزوری
متعدد جائزوں کے مطابق چینی کا زیادہ استعمال یادداشت کی کمزوری کا سبب بھی بنتا ہے۔ خون میں شکر کی زیادہ مقدارکا ذہنی امراض سے بھی براہ راست تعلق ہے۔