جگجیت سنگھ کی چوتھی برسی اور بھارت میں نفرت کی سیاست
10 اکتوبر 2015''مجھے بہت دکھ اور تکلیف ہے کہ مجھے ممبئی میں گانے سے روک دیا گیا۔ صدمہ اس بات کا ہے کہ جگجیت اور میں بھائیوں کی طرح تھے، اور ہم جب بھی ملتے تھے تو اس طرح کہ جیسے ایک ہوں۔ اس وقت نہ وہ ہندوستانی ہوتے تھے نہ میں پاکستانی۔‘‘ یہ الفاظ ہیں نامور پاکستانی غزل گائک غلام علی کے۔ انہیں ممبئی میں جگجیت سنگھ کی چوتھی برسی کے موقع پر ایک کنسرٹ میں گانا تھا تاہم ہندو قوم پرست تنظیم شیو سینا نے انہیں دھمکی دی کہ وہ اس پروگرام میں شرکت نہ کریں۔ کنسرٹ کے منتظمین کو یہ پرفارمنس منسوخ کرنا پڑی۔
برصغیر پاک و ہند میں غزل کے تین بڑے ناموں میں مہدی حسن، جگجیت سنگھ اور غلام علی شامل ہیں۔ بھارت میں ہندو قوم پرستوں کے سیاسی نظریات کے بر عکس ان تین گلوکاروں کے تعلقات بردارانہ تھے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جگجیت مہدی حسن کو اپنا روحانی استاد مانتے تھے اور ان کی عقیدت کو اپنا دھرم۔ دوسری جانب مہدی حسن بھی جگجیت سے محبت اور شفقت برتتے تھے۔ یہی صورت حال جگجیت اور غلام علی کی بھی رہی۔ ہم عصر ہونے کے باجود دونوں کے درمیان مسابقت کا رویہ نہیں بلکہ ساتھیوں کا سا تھا۔
چار برس پہلے، دس کتوبر کے روز، جگجیت دنیا سے کوچ کر گئے۔ اس کے بعد مہدی حسن بھی چل بسے۔ اب غزل کا آخری بڑا نام غلام علی کا رہ گیا ہے، جن کی قدر بھارت اور پاکستان میں یکساں طور پر کی جاتی ہے۔
تاہم بھارتی سیاست تنگ نظری اور مذہبی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پاٹی کے ہندو قوم پرست رہنما نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد ملک میں انتہا پسندی کو تقویت ملی ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے پر مارا پیٹا جا رہا ہے تو دوسری جانب غلام علی جیسے گلوکاروں کے خلاف پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔
کیا جگجیت خود غلام علی کے ساتھ کنسرٹ نہیں کیا کرتے تھے؟ جگجیت سنگھ کی زندگی کا آخری کنسرٹ سن دو ہزار گیارہ میں غلام علی کے ساتھ ہی ہونا طے تھا، جو کہ ان کے اچانک برین ہیمریج کی وجہ سے تبدیل کرنا پڑا تھا۔
بھارت میں غلام علی اور شیو سینا کے تنازعے کے بعد سیکولر افراد غلام علی کی حمایت میں سامنے آ گئے ہیں۔ ان میں بالی وُڈ کی معروف ہستیاں بھی شامل ہیں۔ اداکارہ شبانہ اعظمی اور ہدایت کار مہیش بھٹ پیش پیش ہیں۔ شبانہ اعظمی نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ غلام علی کو تنگ نظری اور سیاست سے بالاتر ہو کر دیکھا جانا چاہیے۔
تاہم مودی کے بھارت میں زور سرمایہ کاری پر ہے، چاہے اس کی جو بھی قیمت ہو۔ مودی کا بھارت نہرو اور مولانا آزاد کا بھارت نہیں ہے، نہ ہی یہاں غزل کی کوئی گنجائش دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے میں جگجیت سنگھ کی چوتھی برسی اس لیے بھی دردناک ہے کہ بھارت اور پاکستان میں محبت کی بولی بولنے والے کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جگجیت سنگھ اور غلام علی کو زیادہ سے زیادہ سنا اور سراہا جائے۔