1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جھوٹی خبروں کے پھیلنے کی رفتار چھ گنا زیادہ ہوتی ہے

عابد حسین ایلزبیتھ شوماخر
9 مارچ 2018

ایک تازہ ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ جھوٹی خبر یا اطلاع، حقیقت اور سچ کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔ یہ ریسرچ امریکا کے مشہور یونیورسٹی ایم آئی ٹی نے مرتب کی ہے۔

Filterblasen
تصویر: DW

میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) کی لیبارٹی برائے سوشل مشینز کے سربراہ ڈیب رائے اسی ریسرچ کے شریک مصنف ہیں۔ رائے نے جھوٹی خبروں کے پھیلنے کے تناظر میں کہا کہ جتنا مرضی کسی بھی جھوٹی خبر کو تراش دیا جائے، انجام کار یہ ہے کہ اُسی نے سچ سے زیادہ تیزی سے پھیلنا ہوتا ہے۔ یہ تحقیقی رپورٹ معتبر سائنسی جریدے ’سائنس‘ میں شائع ہوئی ہے۔

سی آئی اے جعلی خبریں پھیلا رہا ہے، ایران

جھوٹی خبروں کا خوف، جرمن انتخابات پر ’اثرانداز‘ ہوا

اسرائیل اور پاکستان کے درمیان جعلی خبر سے جوہری کشیدگی

امریکی الیکشن: روس نے ’نفیس طریقے سے جھوٹی خبریں‘ پھیلائیں

اس ریسرچ کو مرتب کرنے والے ریسرچرز نے سوا لاکھ سے زائد مختلف ایسے مضامین یا آرٹیکلز کا مطالعہ کیا، جو سن 2006 سے سن 2016 کے درمیان ٹویٹ کیے گئے۔ ان مضامین کو پڑھنے کے بعد صارفین نے دوبارہ لاکھوں مرتبہ ٹویٹ کیا گیا۔ ان مضامین یا آرٹیکلز کے حقائق کے صحیح اور درست ہونے کے لیے چھ مختلف آزاد ذرائع پر انحصار کیا گیا۔

اس ریسرچ سے معلوم ہوا کہ ایک جھوٹی اور من گھڑت خبر یا مضمون یا آرٹیکل کو دس گھنٹوں کے دوران کم از کم پندرہ سو صارفین نے دوبارہ پوسٹ کیا۔ دوسری جانب ایک درست اور حقیقت پر مبنی ایک آرٹیکل کو پندرہ سو افراد کی جانب سے دوبارہ پوسٹ کرنے پر ساٹھ گھنٹے کا عرصہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے علاوہ اعداد و شمار سے معلوم ہوا کہ من گھڑت مواد پر مبنی ایک اسٹوری کو پینتیس فیصد زیادہ ریسپونس ملا۔

تازہ ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ جھوٹی خبر یا اطلاع، حقیقت اور سچ کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیںتصویر: DW

ایم آئی ٹی کی ریسرچ نے یہ حقیقت بھی ظاہر کی کہ ایک صیحیح اور درست خبر یا مضمون کو ایک ہزار صارفین بھی دستیاب نہیں ہوتے۔ دوسری جانب انتہائی مقبول اور زیادہ پڑھی جانے والی جعلی اور بے بنیاد خبروں یا مضامین کو ایک لاکھ سے زائد صارفین دستیاب ہو جاتے ہیں۔ اس تناظر میں اندازہ لگایا گیا کہ ایک جھوٹی خبر کو دوبارہ پوسٹ یا ری ٹویٹ کرنے کا امکان صحیح خبر کے مقابلے میں ستر فیصد زیادہ ہو سکتا ہے۔

اس ریسرچ کے دوسرے شریک مصنف سروش وثوقی کا کہنا ہے کہ جس عرصے پر ریسرچ کی گئی، اُس دور میں عراق جنگ کے ایک سابقہ امریکی فوجی کو ای ایس پی این کرج ایوارڈ  کی خبر بہت تیزی سے پھیلی اور اسی طرح پیرس حملوں کے دوران ایک مسلمان گارڈ کو بطور ہیرو قرار دینے کے آرٹیکل کو بھی صارفین نے بار بار ری پوسٹ کیا۔ وثوقی کے مطابق جھوٹی خبروں کے تیزی سے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ، اُس کا ایک عام شخص کی توقع کے برعکس ہونا بھی ہوتا ہے۔

غلط اور جھوٹی خبر کو انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں