جھیل کونسٹانس سے ڈھائی ہزار سال قبل از مسیح کی کشتی دریافت
1 اپریل 2021
جنوبی جرمنی میں جھیل کونسٹانس کی تہہ میں ماہرین کو تقریباﹰ ڈھائی ہزار سال قبل از مسیح کے دور کی ایک ایسی کشتی ملی ہے، جو اس جھیل سے آج تک ملنے والی قدیم ترین کشتی ہے۔ اسے باہر نکالا بہت سست رفتار اور پیچیدہ عمل ہو گا۔
اشتہار
یہ ایک ایسی مقابلتاﹰ پتلی اور لمبی کشتی ہے، جو canoe کہلاتی ہے اور جسے ایک بڑے درخت کے تنے کو کھوکھلا کر کے بنایا گیا تھا۔ تقریباﹰ ساڑھے چار ہزار سال پرانی اس کشتی کی لکڑی انتہائی نرم ہو چکی ہے اور اسے بڑی احتیاط سے مگر کئی حصوں میں ہی جھیل سے باہر نکالا جا سکے گا۔
جھیل کونسٹانس، باڈن ورٹمبرگ
00:50
جنوبی جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کی وزارت اقتصادیات نے بتایا کہ اس کشتی کی لمبائی آٹھ میٹر (تقریباﹰ 26 فٹ) ہے اور اسے جھیل سے باہرنکالنے کا کام رواں ہفتے شروع کر دیا گیا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ کشتی دو ہزار چار سو سال اور دو ہزار تین سو سال قبل از مسیح کے دور میں کسی وقت بنائی گئی تھی۔
برآمدگی صرف کئی حصوں میں ہی ممکن
اس قدیم ترین 'کَینُو‘ کی جھیل کونسٹانس کی تہہ میں موجودگی کا ابتدائی اندازہ دو ہزار اٹھارہ کی پہلی ششماہی میں لگایا گیا تھا، مگر اب حتمی شناخت اور تصدیق کے بعد اسے پانی سے نکالنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔
باڈن ورٹمبرگ کی صوبائی حکومت کے مطابق ماضی میں اسی جھیل سے جو بہت پرانی کشتیاں ملی تھیں، وہ اس سے بہت چھوٹی تھیں اور انہیں پورے کا پورا ہی پانی سے نکال لیا گیا تھا۔ اپنی نوعیت کی اس تازہ مگر قدیم ترین دریافت کو تاہم اس کی جسامت اور بہت نرم ہو چکی لکڑی کی وجہ سے ایک ہی بار پورے کا پورا پانی سے نکالنا ممکن نہیں ہو گا بلکہ اسے کئی حصوں میں ہی خشکی پر لایا جا سکے گا۔
صوبائی دارالحکومت شٹٹ گارٹ میں اعلیٰ حکومتی عہدیدار وولفگانگ رائمر نے بتایا، ''اس ہزاروں برس پرانی کشتی کی لکڑی اتنی نازک ہے کہ اسے سالم شکل میں نکالنا ممکن ہی نہیں۔ اسے جھیل سے باہر لانے کا عمل کئی ہفتے جاری رہے گا۔‘‘
کھود کر بنائی گئی کَینُو کی خاصیت
بڑے بڑے درختوں کے تنوں کو کھود کر کھوکھلا کرنے کے بعد بنائی گئی کشتیاں اصطلاحاﹰ Dugout Canoes کہلاتی ہیں۔ پانی پر سفر کے لیے بنائے گئی ایسی کشتیاں قبل از تاریخ کے دور میں انسانی آمد و رفت، ماہی گیری اور اشیاء کی نقل و حمل کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔
اب تک ماہرین کو ایسے شواہد بھی مل چکے ہیں کہ اس خطے میں آباد انسان ہزاروں برس قبل بھی ایسی ہی کشتیوں کے ذریعے جھیل کونسٹانس پار کیا کرتے تھے۔
آثار قدیمہ کی ماہر ژُولیا گولڈ ہامر کے مطابق، ''اس دور میں جب کوئی سڑکیں نہیں ہوتی تھیں اور آبی سفر ہی آمد و رفت کا زیادہ آسان طریقہ تھا، تب ایسی کشتیوں کے ذریعے ان کی جسامت اور شکل صورت کی وجہ سے طویل فاصلوں تک سفر مقابلتاﹰ جلد اور آسانی سے مکمل کر لیے جاتے تھے۔‘‘
ژُولیا گولڈ ہامر اور ان کے ساتھ ہائنر شوارسبرگ کا تعلق جنوبی جرمن صوبے باویریا میں آثار قدیمہ کے محافظ ریاستی محکمے سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جھیل کونسٹانس میں ایسی ہی کئی اور کشتیاں بھی پانی کی تہہ میں موجود ہیں۔
ہائنر شوارسبرگ نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا، ''اس دور میں بھی حادثات ہوتے تھے۔ انتہائی شدید موسمی حالات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اس جھیل کے ارد گرد کے علاقوں میں زمانہ قبل از تاریخ کی انسانی آبادیوں کے بہت سے آثار مل چکے ہیں۔ اس لیے یہ بات یقینی ہے کہ اب تک کئی کشتیاں نکالے جانے کے باوجود آج بھی اس جھیل کی تہہ میں کئی ایسی کشتیاں موجود ہیں، جو ہزاروں برس قبل پانی میں ڈوب گئی تھیں۔‘‘
اشتہار
اپنے اندر چھپے خزانوں کی محافظ جھیل
ہائنر شوارسبرگ کہتے ہیں کہ اب جس کشتی کو باہر نکالنے کا کام شروع کیا گیا ہے، اس کی طرح اس جھیل کی تہہ میں موجود دیگر کشتیاں بھی ابھی تک اچھی حالت میں ہوں گی۔ اس کا سبب اس جھیل کے مخصوص اندرونی ماحولیاتی حالات ہیں۔
شمالی پاکستان کی سب سے قدیم مسجد کے آثار تقریباً تیس سال پہلے اطالوی ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے سوات کے علاقے اوڈیگرام میں دریافت کیے تھے، جس کے بعد زرِ کثیر صرف کرتے ہوئے اس کی مرمت اور بحالی کا کام عمل میں لایا گیا۔
تصویر: DW/A. Bacha
قدیم فن تعمیر کا ایک شاہکار
سوات کے علاقے اوڈیگرام میں سلطان محمود غزنوی کے دور کی تعمیر کردہ مسجد شمالی پاکستان کی سب سے پرانی مسجد ہے جو 440 ھجری یعنی 1048 اور 1049 عیسوی کے درمیان تعمیر کی گئی تھی۔ 1985ء میں اٹالین آرکیالوجیکل مشن نے اس مسجد کو دریافت کیا تھا۔
تصویر: DW/A. Bacha
غزنوی کی فوج سوات میں
اوڈیگرام کے ایک رہائشی اور ماہر آثار قدیمہ جلال الدین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ گیارہویں صدی کے دوران جب سلطان محمود غزنوی نے صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) پر حملہ کیا تو اُس کی فوج باجوڑ ایجنسی کے ذریعے سوات کی تاریخی وادی میں داخل ہوئی۔
تصویر: DW/A. Bacha
فتح کی خوشی میں مسجد کی تعمیر کا اعلان
سوات کی وادی میں داخل ہونے کے بعد علاقے کو فتح کرنے کے لیے سلطان محمود غزنوی نے اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا: ایک گروپ جس کی سربراہی وہ خود کر رہے تھے، دریا عبور کرنے کے بعد اس تاریخی علاقے میں داخل ہونے کے بعد اس وقت کے آخری بادشاہ راجہ گیرا کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ آور ہوا۔ فتح حاصل کرنے کے بعد سلطان محمود غزنوی نے اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور اس وقت کے حاکم منصور نے یہ مسجد تعمیر کروائی۔
تصویر: DW/A. Bacha
ہزار سال بعد دوبارہ تعمیراتی کام
1985ء میں اس مسجد کو دریافت کرنے والے اٹالین آرکیالوجیکل مشن نے اس عبادت گاہ کی بوسیدہ دیواروں کو دوبارہ تعمیر کیا جبکہ مسجد کو جانے والے راستے اور وضو خانے بھی تعمیر کیے۔ ساتھ ساتھ اس مسجد کو چاروں طرف سے محفوظ بھی بنایا گیا۔
تصویر: DW/A. Bacha
پہاڑی کے دامن میں عبادت گاہ
اوڈیگرام میں پہاڑوں کے دامن میں 1984ء میں مسجد کے احاطے سے ایک کتبہ دریافت ہوا، جس پر درج تھا کہ محمود غزنوی نے اپنے بھتیجے حاکم منصور کو مسجد کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ حاکم منصور نے اپنے سپہ سالار نوشتگین کے زیر نگرانی مسجد تعمیر کروائی، جس کا مقصد علاقے میں اسلام کا فروغ تھا۔
تصویر: DW/A. Bacha
بدھا کے مجسموں کے آثار
ایک اور ماہر آثار قدیمہ فضل خالق کے مطابق مسجد کے مقام پر بدھ مت کے دور کے آثار بھی نمایاں ہیں۔ یہ آثار مسجد کی تعمیر سے پہلے بھی یہاں موجود تھے، جنہیں توڑا گیا اور پھر اُنہی پتھروں کو استعمال کرتے ہوئے یہ مسجد تعمیر کی گئی۔
تصویر: DW/A. Bacha
اسلامی فن تعمیر کی عکاس عبادت گاہ
اوڈیگرام (سوات) کی سلطان محمود غزنوی مسجد قدیم اسلامی فن تعمیر کی عکاسی کرتی ہے۔ مسجد میں 30 فٹ چوڑی دیوار، عام کمرے، طالب علموں کے کمرے، ان کے پڑھنے کی جگہ، قبرستان اور صحن میں پانی کا ایک تالاب بھی موجود ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
مسجد تک جانے والا راستہ
کافی بلندی پر واقع اس مسجد تک جانے کے لیے ایک کشادہ راستہ تعمیر کیا گیا ہے۔ مسجد کی تعمیرِ نو کا کام 2011ء میں اٹالین آرکیالوجیکل مشن کی نگرانی میں انجام پایا اور اس پر دو ملین یورو کی لاگت آئی۔ اٹالین آرکیالوجیکل مشن پاکستان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر لوکا ماریا الویری کے مطابق مسجد کی تزئین و آرائش پاکستان اور روم حکومت کے درمیان 2006ء میں طے ہونے والے سو ملین ڈالر کے ایک آرکیالوجیکل معاہدے کا حصہ ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
سواتی آثارِ قدیمہ میں اٹلی کی دلچسپی
اٹلی کے آرکیالوجیکل مشن کے تحت اوڈیگرام میں مسجد کے آثار کی کھوج کا کام 1985ء سے لے کر 1999ء تک جاری رہا۔ اطالوی حکومت وادیء سوات میں قدیم ورثے کی حفاظت کے کئی دیگر منصوبوں پر بھی کام کر رہی ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
بلند و بالا پہاڑوں کے دلکش مناظر
مسجد سے نیچے وادی میں دیکھنے پر یہ خوبصورت منظر دکھائی دیتا ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں واقع یہ قدیم اور تاریخی مسجد اب سیاحوں اور عام لوگوں کے لیے کھولی جا چکی ہے اور دور دراز علاقوں سے لوگ اس مسجد کو دیکھنے کے لئے جاتے ہیں۔ یہاں اب باقاعدگی سے نمازِ جمعہ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
10 تصاویر1 | 10
انہوں نے کہا، ''اس جھیل میں خاص طور پر ایسے قدیم نوادرات اس لیے محفوظ رہتے ہیں کہ ایک تو وہ گل سڑ جانے کے قدرتی عمل کا سبب بننے والی ہوا سے دور ہوتے ہیں اور دوسرے وقت کے ساتھ ساتھ وہ جھیل کی تہہ میں بتدریج بننے والی باریک ریت اور مٹی کی چادر کے نیچے دب جاتے ہیں۔
جرمنی میں مختلف اشکال اور حجم کی تقریباﹰ 30 ہزار جھیلیں ہیں۔ اگر گرمیوں کی چھٹیاں گزارنا چاہتے ہیں تو دیکھئے یہ دس جھیلیں جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہیں۔
جھیل کونسٹانس جرمنی کے علاوہ سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا میں بھی موجود ہے۔ جرمنی میں Konstanz بندرگاہ میں داخل ہوتے ہی یہاں ایک خاتون کا مجسمہ نظر آتا ہے جس نےایک ہاتھ میں بادشاہ اور دوسرے میں پوپ کو تھام رکھا ہے۔ یہ مجسمہ چھ صدی قبل یہاں کی اخلاقی گراوٹ کی جانب ایک کنائیہ ہے اور ہر چار منٹ بعد اپنے محور میں گھومتا دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Kästle
اسٹافل ذے
جرمنی کی جنوبی ریاست باویریا میں کوہ ایلپس کے پس منظر میں کئی دلفریب جھیلیں ہیں ۔ یہاں کی سب سے بڑی جھیل، Chiemsee ہے جو 80 کلو میٹر پر محیط ہے۔ تاہم اسٹافل ذے اس کے مقابلے میں کافی چھوٹی ہے تاہم یہاں روشنی کچھ اس انداز تک پہنچتی ہے کہ یہ جھیل خوبصورتی میں بے مثل نظر آتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/A. Hartl
آئب ذے
باویریا میں ہی جرمنی کی سب سے اونچی پہاڑی کے سامنے موجود جھیل کانام کئی برس قبل اس کے اطراف میں موجود آئب ذے درختوں کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس جھیل کا کرسٹل کی طرح شفاف پانی اس جگہ کے حسن کو دوبالا کرتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S.Hoppe
ڈاؤنر مارے
یہاں گہری نیلی اور گول شکل کی جھیلوں کا وجود جوالہ مکھی کے باعث وجود میں آیا۔ اس خطے میں ایسے تقریباﹰ 70 جھیلیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. P. Tschauner
فروہلنگرو ذے
کولون شہر کے شمال میں واقع یہ جھیل انسانی کاریگری کا نتیجہ ہے۔ یہاں گرمیوں میں 80 ہزار سے زائد افراد آتے ہیں اور یہاں ہونے والے اسپورٹس ایونٹ میں حصہ لیتے ہیں۔
جرمنی کا سب سے بڑا ذخیرہ آب اس وقت وجود میں آیا جب دریائے Saale پر بند باندھا گیا۔ اس تالاب میں 215 ملین کیوبک پانی کو ذخیرہ کیا گیا ہے۔ ان پانیوں میں تین روزہ بحری سفر کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/F. Herrmann
ایڈر ذے
صوبہ ہیسے کے نیشنل پارک میں موجود اس جھیل کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے چاروں اطراف موجود درختوں کو یونیسکو کی جانب سے ورلڈ نیچرل ہیریٹیج قرار دیا جا چکا ہے۔ اس کے پانیوں میں صرف برقی کشتیوں کو چلنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
تصویر: picture alliance/U. Zucchi
لاؤسٹزر ذےلانڈ
جرمنی کے جنوب مشرقی ریاست سیکسنی میں یورپ کی سب سے بڑی مصنوعی جھیل کامپلیکس تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہاں موجود مختلف جھیلوں کی شاخیں 80 کلو میٹر طویل حصے تک پھیلی ہوئی ہوں گی۔ سیاحوں کی اس کامپلیکس میں ابھی سے آمد شروع ہو چکی ہے ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
اشٹیشلن ذے
اس خوبصورت جھیل کا ذکر معروف جرمن مصنف تھیوڈور نے اپنے ناول The Stechlin میں بھی کیا ہے۔ 70 میٹر گہری اور شفاف پانی والی یہ جھیل Brandenburg میں موجود دیگر 3 ہزار جھیلوں میں سب سے زیادہ دلفریب تصور کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/S.Thomas
مؤرٹز
مؤرٹز جرمنی کی شمالی ریاست Mecklenburg-Vorpommern میں دو ہزار کے لگ بھگ جھیلیں ہیں۔ یہاں کی سب سے بڑی جھیل ہے جہاں ہر سال بہار اور خزاں کے موسم میں ہزاروں سارس نظر آتے ہیں۔ اس جھیل کے سفر کے لیے برلن یا ہیمبرگ سے آبی سفر کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/B. Wüstneck
10 تصاویر1 | 10
ژُولیا گولڈ ہامر کہتی ہیں، ''اس جھیل کا ماحولیاتی نظام ایسے تاریخی نوادرات کی دریافت کے لیے بہترین ہے۔ اس لیے کہ اس جھیل کی تہہ میں پہنچ جانے والی اشیاء آسانی سے شکست و ریخت اور ٹوٹ پھوٹ کے عمل کا شکار نہیں ہوتیں۔
جھیل کونسٹانس کے بارے میں کلیدی حقائق
جھیل کونسٹانس جنوبی جرمنی میں ایک ایسی بہت بڑی جھیل ہے جس کے جغرافیائی طور پر تین حصے ہیں: بالائی جھیل، رائن جھیل اور زیریں جھیل۔ اس جھیل کے کنارے تین مختلف یورپی ممالک کی سرحدوں سے ملتے ہیں۔ یہ ممالک جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا ہیں۔
یہ جھیل، جسے جرمن زبان میں 'بوڈن زے‘ کہتے ہیں، ایسے وسیع و عریض نشیبی علاقے میں واقع ہے، جہاں سے کچھ ہی دور ایلپس کے پہاڑی سلسلے کا آغاز ہوتا ہے۔ اس جھیل کے کناروں کی مجموعی لمبائی 273 کلو میٹر ہے، جس میں سے 173 کلومیٹر کا علاقے جرمنی میں ہے۔
اپنے مجموعی رقبے کے لحاظ سے جھیل کونسٹانس مغربی یورپ کی تیسری سب سے بڑی جھیل ہے۔ اپنے قدرتی حسن، اقتصادی اہمیت اور ماحولیاتی نظام کی وجہ سے انتہائی منفرد حیثیت کی حامل یہ جھیل اتنی بڑی ہے کہ اس میں بہت سے قدرتی جزیرے بھی ہیں۔ ان میں سے دو ہزار مربع میٹر سے زیادہ رقبے والے جزیروں کی تعداد دس ہے۔
اس جھیل میں 45 مختلف قسموں کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں اور اس کا شمار دنیا کی انتہائی اعلیٰ معیار کے پانی والی جھیلوں میں ہوتا ہے۔
م م / ع ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)
سردیوں کے موسم میں جرمنی ایک جادوئی سرزمین
برف سے ڈھکے جنگل، منجمد جھیلیں اور سفید چھتیں، موسم سرما میں جرمنی اپنا روپ بدل کر ایک جادوئی سرزمین بن جاتی ہے لیکن اس کے لیے کافی زیادہ سردی بھی پڑنی چاہیے۔ برف دلکش ہوتی ہے لیکن ساتھ کچھ مسائل بھی لاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
برف میں لمبی سیر
جرمن علاقے سویبیا آلب کے برف سے ڈھکے یہ مناظر تازہ ہوا میں ایک لمبی سیر کی ترغیب دیتے ہیں۔ ایسے میں کیمرہ ساتھ لے جانا نہیں بھولنا چاہیے کیونکہ ہر موڑ کے بعد کوئی نہ کوئی نیا دلکش منظر آپ کو مبہوت کرنے کے لیے موجود ہو گا۔
تصویر: picture alliance / Arco Images GmbH
سرما میں شہر کا منظر
برف کی صورت میں آسمان سے گرنے والے گالوں سے ڈھکے جرمن شہر ماگڈے برگ کا ایک طائرانہ منظر۔ یہ شہر جرمنی کے مشرقی حصے کے صوبے سیکسنی انہالٹ کا دارالحکومت ہے۔ جرمنی کے مغربی حصے کے مقابلے میں یہاں برف پڑنے کے امکانات کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/ZB/A. Lander
واٹسمان کی چوٹی پکارتی ہے
واٹسمان کی چوٹی 2713 میٹر بلند ہے اور یہ جرمنی کا بلند ترین اور شاید خوبصورت ترین پہاڑ ہے، بائیں جانب ’بیگم واٹسمان‘ جبکہ درمیان میں ’واٹسمان فیملی کے بچے‘ نظر آ رہے ہیں۔ جنوبی جرمنی میں پہاڑی سلسلے ایلپس کا یہ وہ منظر ہے، جسے ہر سال سردیوں میں سرمائی کھیلوں کے متعدد کھلاڑی دیکھنے کے لیے پہنچتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Muncke
اسکی انگ ایک قومی کھیل
پہاڑوں میں پرورش پانے والے بچے بچپن ہی میں یہ کھیل کھیلنا شروع کر دیتے ہیں لیکن عرصہ ہوا، شمالی جرمنی کے میدانی علاقوں سے بھی بہت سے لوگ اس کھیل سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایلپس کے پہاڑوں میں پہنچتے ہیں۔ عشروں پہلے اسکی انگ کے خواہاں افراد کو پہاڑوں کے اوپر پیدل چڑھ کر جانا پڑتا تھا، آج اس مقصد کے لیے لفٹیں استعمال کی جاتی ہیں، جیسے کہ الگوئے کے علاقے میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Puchner
ننھے منے بچوں کی موج
ضروری نہیں کہ ہر گھر کے سامنے ایک پہاڑ ہو، ایک چھوٹے سے ٹیلے سے بھی برف گاڑی میں پھسلنے کے شوقین بچوں کا کام بن جاتا ہے۔ جب بچے لکڑی یا پلاسٹک سے بنی برف گاڑی میں بلندی سے نشیب کی جانب پھسلنا شروع کرتے ہیں تو اُن کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔
تصویر: dapd/H. Tittel
بڑوں کے لیے بڑی برف گاڑی
بڑوں کے لیے ایسی بڑی برف گاڑیاں ہوتی ہیں، جنہیں گھوڑے کھینچتے ہیں۔ آپ مزے سے پیچھے کوئی موٹا کمبل اوڑھے بیٹھے ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ کسی گرم مشروب سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں جبکہ برف گاڑی برف سے ڈھکی زمین پر سہولت کے ساتھ پھسلتی رہتی ہے اور آپ مزے سے آس پاس کے برفانی مناظر سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Schulze
برفانی انسان تو ضروری ہوتا ہے
برف پڑنے کے بعد اس سے آپ کی ملاقات کسی جنگل میں، کسی گھر کے احاطے میں بنے باغیچے میں، پارکوں میں یا کسی بینچ پر بھی ہو سکتی ہے۔ یہ ہے، برفانی انسان۔ برف کی مدد سے بچے ہی نہیں بلکہ بڑے بھی اس انسان کو شوق سے تعمیر کرتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/J. Woitas
برف سے بنے مجسمے
یہ خوبصورت چیزیں انسانی ہاتھوں نے نہیں بنائیں بلکہ انہیں قدرت نے تخلیق کیا ہے۔ جب جھاڑیاں اور درخت برف میں چھُپ جاتے ہیں اور منجمد شکل اختیار کر لیتے ہیں تو پھر اُن کی اصل شکل کا تصور تک کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہارتس کے مقام پر 1141 میٹر کی بلندی پر اس طرح کے ہوش رُبا مناظر کثرت سے دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/R. Krawulsky
پرندوں کے لیے خوراک
انسان تو آسمان سے روئی کے گالوں کی طرح گرتی برف سے بہت خوش ہوتے ہیں لیکن بہت سے جانوروں کے لیے یہ برف ایک مصیبت بن جاتی ہے۔ جو پرندے گرم علاقوں کی جانب پرواز کرنے کی بجائے اپنے ہی وطن میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں، اُن کے لیے اپنی خوراک کا بندوبست کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ خوراک ویسے بھی کم ہوتی ہے، اس لیے انسان ان پرندوں تک خوراک پہنچاتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Rehder
ہر طرف برف ہی برف
سردیوں کا موسم انسانوں کے لیے کافی پریشان کن بھی ہوتا ہے۔ لوگوں کو اپنے گھروں کے سامنے پڑی برف ہٹانا پڑتی ہے اور اپنی سفید ہو چکی گاڑیوں کو بھی بڑی محنت سے صاف کر کے برف سے نجات دلوانا پڑتی ہے۔ جس کسی کو دو تین مہینے مسلسل اس عمل سے گزرنا پڑے، وہ پھر بہار کی جلد آمد کی دعائیں مانگنے لگتا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/T. Hase
سردیوں کے موسم میں ساحلوں کے مناظر
کچھ جزائر سردیوں کے موسم میں مین لینڈ سے بالکل کٹ جاتے ہیں کیونکہ جھیلیں جم جاتی ہیں اور کسی کشتی یا جہاز کے لیے سفر کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ شکر ہے کہ ایسا کم کم ہوتا ہے۔ یہ منظر جرمن جزیرے زِلٹ کا ہے، وہاں کا ساحل پر اکثر اس طرح کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ossinger
ہیمبرگ: سرما کی سب سے بڑی پارٹی
جب ہیمبرگ شہر کی جھیل آلٹرزے جَم جاتی ہے تو ہزارہا لوگ مخصوص جوتے پہن کر اس پر پھسلنے کے لیے یا ویسے ہی سیر کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ آخری مرتبہ یہ جھیل 2012ء میں مکمل طور پر جمی تھی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے اب ایسا کم کم ہونے لگا ہے۔