1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جہادی تنظیموں کے خلاف کريک ڈاؤن: فيصلہ کن کارروائی يا دکھاوا

عبدالستار، اسلام آباد
5 مارچ 2019

پاکستان ميں جیش محمد اور ديگر جہادی تنظیموں کے خلاف کریک ڈاون شروع کر دیا گيا ہے۔ کئی لوگوں کے خیال میں یہ گزشتہ ادوار میں کی گئی ايسی کارروائیوں سے مختلف ہے لیکن ناقدین کا يہ بھی کہنا ہے کہ یہ کریک ڈاون محض دکھاوا ہے۔

Pakistan Soldaten in Tatta Pani
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

پولیس ذرائع کے مطابق کالعدم تنظيم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کے بھائی مولانا عبدالرؤف اور مسود اظہر کے بیٹے حماد اظہر سمیت مجموعی طور پر چوالیس افراد کو حفاظتی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ جیش محمد کا مرکز اور مسجد، جو بہاولپور میں قائم ہے، پہلے ہی مقامی انتظامیہ کے قبضے میں ہے۔ امکان ہے کہ مولانا مسعود اظہر کو بھی حراست میں لے لیا جائے گا۔ تاہم اس بارے ميں حتمی فیصلہ اگلے چوبیس گھنٹوں کے دوران سامنے آنے کا امکان ہے۔ بہاولپور سے ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مسعود اظہر بیمار ہیں اور ممکنہ طور پر اسی ليے حکومت نے ان کو ابھی تک حراست میں نہیں لیا۔

پاکستانی وزارتِ داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ در اصل ان کارروائیوں کی منظوری دسمبر سن 2018 میں ہی دے دی گئی تھی۔ اس کے برعکس ناقدین کا خیال ہے کہ بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ نے حکومت کو مجبور کیا کہ ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

پلوامہ حملے کے بعد امریکا سمیت کئی ملکوں نے اسلام آباد حکومت پر زور دیا کہ وہ ایسی تنظیموں کے خلاف فيصلہ کن اقدامات کرے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے مستقبل میں ہونے والے اجلاسوں میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے ليے بھی اسلام آباد کو ایسے اقدامات کرنے ہی تھے۔

پاکستان نے آرمی پبلک اسکول پر سن 2014 ميں ہونے والے حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا، جس کا مرکزی نقطہ جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف کارروائی تھا۔ لیکن کئی سیاستدانوں اور ناقدین کے خیال میں اس پروگرام پر درست انداز سے عمل نہیں کیا گیا۔ ماضی میں جماعت الدعوہ کے حافظ سعید کو بھی نظر بند کیا گیا لیکن بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے متعدد سیاست دان سمجھتے ہیں کہ یہ کارروائیاں ’بے معنی‘ ہیں۔

پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ کے خیال میں ايسے عناصر کے خلاف حقيقی معنوں ميں کارروائی کبھی نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا، ’’یہ گرفتاریاں مصنوعی ہیں۔ جب تک ریاست اپنی پالیسی نہیں بدلے گی، ايسے عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ عالمی برادری اور پاکستانی عوام چاہتے ہیں کہ انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی ہو کیونکہ انہوں نے تقريباً ستر ہزار پاکستانیوں کو شہید کیا ہے۔ دنیا بھی ان سے نفرت کرتی ہے لیکن جب تک ریاست اپنی پالیسی نہیں بدلے گی ان کے خلاف کچھ نہیں ہوگا۔‘‘

دريں اثناء پاکستان ميں جس رفتار سے کارروائیاں جاری ہيں، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس بار ایکشن سخت اور فيصلہ کن ہوگا۔ جماعت الدعوہ کے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے دفاتر پہلے ہی سے بند ہیں اور ہماری فلاحی سرگرمیاں بھی کافی عرصے سے پابندی کی زد ميں ہیں۔ اب ہمارے کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔‘‘

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا بھی يہی سجھتے ہیں کہ اس بار کارروائی سخت ہو گی۔ انہوں نے کہا، ’’میرے خیال سے اس وقت پاکستان پر شدید دباؤ ہے۔ غیر ریاستی عناصر کی وجہ سے پاکستان اور بھارت جوہری جنگ کے دہانے پر ہیں۔ خطے ميں امریکا اور دوسرے ممالک کی اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری ہے، جو جنگ کی وجہ سے برباد ہو سکتی ہے۔ لہذا پوری دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ ايسے عناصر کے خلاف کارروائی کرو۔ نتيجتاً پاکستان کو یہ کرنا ہی پڑے گا اور میرے خیال سے اب کہ یہ کارروائی فیصلہ کن ہوگی۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں