نوجوان جرمن طالبہ لِنڈا ڈبلیو کو عراقی عدالت نے دہشت گرد تنظیم داعش میں شامل ہونے پر چھ سال قید کی سزا سنائی ہے۔ لِنڈا کو عراقی فوجیوں نے جولائی کے وسط میں شہر موصل پر قبصے کے بعد حراست میں لیا تھا۔
اشتہار
مختلف میڈیا زرائع کے مطابق سترہ سالہ لِنڈا کو عراقی عدالت کی جانب سے پانچ برس قید کی سزا داعش میں شمولیت جبکہ ایک برس کی سزا ،عراق میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کے جرم میں دی گئی ہے۔ جرمن حکام کی جانب سے ابھی اس سزا کی فوری طور پر تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
نوجوان جرمن طالبہ کو داعش کا گڑھ سمجھے جانے والے شہر موصل سے حراست میں لینے کے بعد بغداد منتقل کر دیا گیا تھا جہاں وہ عراقی فوج کے ایک ہسپتال میں زیر علاج رہی۔
لِنڈا ڈبلیو کا تعلق مشرقی جرمنی کے ایک گاوں Pulsnitz سے ہے جہاں سے وہ 2016 کے وسط میں شدت پسندوں سے آن لائن رابطے میں رہنے کے بعد اسلام قبول کر کے غیر قانونی طور پر ترکی اور شام کے راستے عراق پہنچی۔ جہاں اس نے چیچنیہ سے تعلق رکھنے والے ایک جہادی سے شادی کر لی تھی۔
عراقی فوجیوں کے ہاتھوں اپنی گرفتاری کے بعد جرمن صحافی کو دیے گئے ایک ٹی وی انٹرویو میں لنڈا کا کہنا تھا کہ وہ اب گھر جانا چاہتی ہیں، ’’ میں اپنے گھر، اپنے خاندان کے پاس واپس جانا چاہتی ہوں۔ میں جنگ، اسلحے اور اس شور سے دورجانا چاہتی ہوں۔ میں نہیں جانتی مجھے یہ بے وقوفانہ خیال کیوں آیا۔ میں نے اپنی زندگی مکمل طور پر تباہ کر لی ہے۔‘‘
یاد رہے کہ لِنڈا ڈبلیو موصل کے ایک جہادی ٹھکانے سے گرفتار ہونے والی واحد لڑکی نہیں بلکہ اس کے ہمراہ پانچ دیگر خواتین کو بھی حراست میں لیا گیا تھا جن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ خواتین بھی غیر ملکی ہیں۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔