ترقی پذیر اقتصادیات کے حامل پانچ ممالک کے تنظیم نے پاکستان میں مقیم جہادی گروپوں کو علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ اس فیصلے کا بھارت نے خیرمقدم کیا ہے۔ برکس سمٹ آج ختم ہو گئی ہے۔
اشتہار
چین کے ساحلی شہر شیامن میں منعقد ہونے والی برکس سمٹ کے اختتامی اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس میں شریک رہنما علاقائی سکیورٹی کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور وہ اس صورت حال کا ذمہ دار طالبان، اسلامک اسٹیٹ، القاعدہ اور اُس کے ساتھ وابستگی رکھنے والی عسکری تنظیموں بشمول مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ، اسلامک موومنٹ برائے ازبکستان، حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ، جیشِ محمد، تحریکِ طالبان پاکستان اور حزب التحریر کو سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں مقیم عسکری تنظیموں کے نام پہلی مرتبہ برکس فورم پر لیے گئے ہیں۔ ان میں لشکر طیبہ، جیشِ محمد، تحریکِ طالبان پاکستان اور حزب التحریر شامل ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ان تنظیموں کی گونج برکس فورم پر سنی گئی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ چین پاکستان کا قریبی حلیف خیال کیا جاتا ہے اور برکس تنظیم کے اعلامیے میں ایسی تنظیموں کا حوالہ پاکستانی خارجہ پالیسی کا امتحان بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
بھارت کی جانب سے برکس کے اعلامیے میں ان عسکری تنظیموں کے حوالے سے تحفظات ظاہر کیے جانے پر خیرمقدم کیا گیا ہے۔ بھارتی موقف کے مطابق وہ بھی پاکستان میں مقیم جہادی تنظیموں کے خلاف عملی اقدامات کا حامی ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کی ترجمان پریتی سارن نے برکس اعلامیے میں ان تنظیموں کے حوالے کو ایک غیرمعمولی پیش رفت قرار دیا ہے۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
سارن کے مطابق برکس اعلامیے نے ظاہر کیا ہے کہ عالمی برادری دوہرے معیار کو قبول نہیں کر سکتی۔ سارن نے یہ بھی کہا کہ اچھے اور برے دہشت گردوں کا کوئی وجود نہیں اور ان کے خلاف مجموعی اقدام ہی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ برکس تنظیم میں شامل ممالک کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔
برکس کے اعلامیے اور بھارتی ردعمل پر پاکستان کی جانب سے ابھی تک کوئی بیان نہیں دیا گیا ہے۔
دوسری جانب چین کے صدر شی جن پنگ نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات میں واضح کیا کہ اُن کا ملک نئی دہلی کے ساتھ اچھے اور مستحکم تعلقات کا خواہاں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں ملکوں کے لیے دو طرفہ مستحکم تعلقات کی پالیسی پر عمل کرنا ضروری ہے۔ صدر شی جن پنگ کے بیان کو چین کے سرکاری میڈیا پر پیش کیا گیا ہے۔