1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جہانگیر ترین: قریب ترین سے دور ترین 

15 اپریل 2021

بہت پرانا قصہ نہیں ہے، جب جہانگیر ترین عمران خان کے سیاسی سانسوں کے نگہبان سمجھے جاتے تھے۔ زمینی سفر ہو یا ان کے ذاتی جہاز کا فضائی سفر، جہانگیر ترین خان صاحب کے ساتھ ساتھ تھے۔

Pakistan Islamabad Versammlung Imran Khan
تصویر: picture alliance/ZUMA Press

سیاسی جلسے کا اسٹیج ہو یا نواز شریف حکومت کے خلاف دھرنے کا کنٹینر، یوں سمجھ لیجیے ایک سیاسی ہمسفر جیسی زندگی گزر رہی تھی اور اب جدائی کا سفر ناقابل یقین کہانی کا سفر ہے۔  ایک طرف عمران خان کی شخصیت کا دبدبہ، چاہنے والوں کے لیے سحر انگیز شخصیت، ماضی کے حکمرانوں، شریف خاندان اور زرداری کے خلاف دھواں دار تقاریر، نوجوانوں کے ذہنوں کے گرد انقلابی خوابوں کا حصار کھینچنے والے خان صاحب اور دوسر ی طرف سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر، جیبوں میں اربوں کا سرمایہ، رحیم یار خان کے مخدوموں، ملتان کے گیلانیوں اور سندھ کے پیر پگارا سے رشتہ داریوں کی دامن سے گراہیں باندھے ترین صاحب۔

ایک پولیس افسر کا بیٹا، عملی زندگی کا آغاز پنجاب یونیورسٹی میں ہزار روپے کی تنخواہ سے کیا، کچھ عرصہ بنک میں ملازمت اور پھر دو تین دہائیوں میں جنوبی پنجاب اور سندھ میں ہزاروں ایکڑ اراضی کی ملکیت۔کریڈٹ ترین صاحب کی قسمت کو دیں یا کاروباری ذہنی صلاحیتوں کو، صوابدید آ پ کی سوچ پر چھوڑتے ہیں۔ 

یہ حقیقت کہ ترین صاحب ملک میں کارپوریٹ فارمنگ کی بنیاد رکھنے والوں میں ہیں۔ اپنی زمینوں پر کام کرنے والوں کی اولادوں کے لئے تعلیمی اداروں اور مقامی آبادی  کے لیے فلاحی ادارے بھی چلا رہے ہیں۔ جب اربوں کا وزن ساتھ ہو تو عموماً پاکستان میں ایسی شخصیات کو معاشرے میں سماجی اور سیاسی اثر و رسوخ کے لیے سیاست میں سرمایہ کاری کی سوجتی ہے۔ اگر لاٹری کا نمبر لگا تو چار چاند، دنیا میں ہی ایک کے بہتر ملنے کا چانس اور کاروبار کے گرد حفاظتی ڈھال بھی تعمیر۔ ترین صاحب کے ساتھ بھی غالبا کچھ یوں ہی ہوا۔ عمران خان سے قبل انھیں شہباز شریف کی قربت ملی، بطور مشیر کام کیا۔ 

جب شریف خاندان پر جنرل مشرف کے دور میں مشکل وقت آیا تو جہاں وفاداروں نے راتوں رات صفیں بدلیں وہاں وہ بھی چوہدری برادرز کی ق لیگ میں شامل ہو گئے۔

اویس توحیدتصویر: privat

سرمایہ کاروں سے نظریات کی توقع رکھنی نہیں چاہیے تو ترین صاحب کو دوش دینا شاید مناسب نہ ہو۔ وفاقی وزیر بنے اور مشرف صاحب کے ہی دور میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات مزید استوار ہوئے۔ پہلے تعلق تو تھا کیونکہ ابتداء میں جنوبی پنجاب میں زیادہ تر ریٹایرڈ فوجیوں سے ان کی بنجر زمین سستی داموں خریدی تھی جسے اپنی کاروباری بصیرت سے زرخیز بنایا۔ 

مشرف دور کے بعد چند برس پس منظر میں رہتے ہوئے بدلتی سیاست کو بھانپا، اب تک جس شے کو ہاتھ لگایا تھا سونے میں تبدیل ہوئی تھی۔ سیاسی میدان کی دوڑ میں عمران خا ن سب سے مضبوط نظر آئے، اسٹیبلشمنٹ کے رویوں کو محسوس کیا اور سب کچھ داو پر لگا دیا۔ 

دو ہزار تیرہ میں تحریک انصاف ایک سیاسی قوت کے طور پر ابھری ضرور مگر رہی اقتدار سے دور۔ ان کی خان صاحب سے دوستی مضبوط انہی دنوں ہوئی۔ انہوں نے عمران خان کو الیکشن نتائج کا تجزیہ پیش کیا اور حصول اقتدار کے لیے پنجاب کے سیاسی خاندانوں کی پارٹی میں شمولیت کے ٹوٹکے پر ان کی رضامندی حاصل کی۔ 

نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے کشیدگی، تحریک انصاف کا دھرنا، پھر پانامہ اور کرپشن مقدمات بالآخر ان کی نا اہلی ہوئی۔ دو ہزار اٹھارہ انتخابات سے قبل بدلتی ہواؤں کو محسوس کرتے ہوئے پنجاب کی روایتی سیاسی شخصیات کا موسمی پرندوں کی طرح تحریک انصاف کے گھونسلے میں آمد کا تانتا سا بندھ گیا۔ 

سیاسی پرندوں کے اس جھنڈ کی رہنمائی ترین صاحب کر رہے تھے۔ پارٹی میں اپنا تگڑا گروپ اور خان صاحب کے بھرپور اعتماد سے انہیں بے پناہ طاقت حاصل ہوئی تھی۔ وہ خان صاحب اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک پل کا کردار بھی ادا کر رہے تھے۔ 

کہا جاتا ہے کہ دھرنے کے دوران کنٹینر پر عسکری قیادت کا عمران خان کے ساتھ ملاقات کا سندیسہ بھی ترین صاحب کے موبائل پر ہی آیا تھا۔ اس دوران جہاں انہوں نے ایک سرمایہ دار سے طاقتور سیاسی شخصیت کا روپ دھارا، وہاں پارٹی میں جلن، حسد اور دشمنیاں بھی مول لیں۔ 

انٹرا پارٹی الیکشن میں جسٹس وجیہ الدین نے جہانگیر ترین اور علیم خان پر امیدواروں میں رقوم کی تقسیم جیسے الزامات لگائے۔ ملک کے عام انتخابات میں انہیں بے پناہ اختیارات حاصل ہوئے۔ کون ٹکٹ کا حق دار ہے، کون نہیں، صوابدید ترین صاحب کی۔ ایک موقعے پر تو شاہ محمود قریشی احتجاج کر بیٹھے، بڑی مشکل سے صلح ہوئی لیکن دل میلے ہی رہے۔ 

انتخابات کے قریب آتے دن، جہاں عمران خان کے وزیر اعظم بننے کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا تھا، وہاں ترین صاحب کی خواہشات کو بڑا جھٹکا لگا ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق صادق امین قرار نہیں پائے گئے اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہلی کا حکم ملا۔ الیکشن کی جوڑ توڑ کا زمانہ تھا تو ترین صاحب اور ان کے جہاز کی پروازیں جاری رہیں۔ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد، جہانگیر ترین نااہل ہونے کے باوجود ہر اہم حکومتی میٹنگ میں پالیسی ساز کی طرح  موجود ہوتے۔ پارٹی میں ان کے ناقدین کا الزام کہ وفاق میں انہوں نے ڈپٹی پرائم منسٹر اور پنجاب میں چیف منسٹر کی طرح رویہ اپنایا ہوا تھا۔

ان کی نااہلیت اور اس کے بعد سیاسی جانشین علی ترین کی لودھراں کے ضمنی الیکشن میں شکست تو پارٹی میں موجود مخالفین کو ان کے خلاف ایک اور محاذ مل گیا۔ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد تعلقات میں بدلاؤ ایک قدرتی عمل تھا۔ پورا ایک نظام ہوتا ہے بیوروکریسی کا۔ وزیر اعظم ہاؤس میں پہلا ٹکراؤ عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان سے ہوا، جنہیں وہ اپنے خلاف کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ بیرسٹر شہزاد اکبر بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔ 

گزشتہ برس جب چینی کی قیمتیں آسمان سے پہنچیں تو شوگر کمیشن کی تفتیشی رپورٹ جاری کی گئی۔ ذمہ داروں کی فہرست تو طویل تھی لیکن ترین صاحب کے نام کو خوب اچھالا گیا۔ وہ چند ماہ کے لیے برطانیہ چلے گئے۔ اقتدار کی راہ داریوں سے دوریاں ہوں، وزیر اعظم سے بھی فاصلہ ہو اور آپ کے حریف بھی تاک میں ہوں تو بدگمانیاں مزید بڑھتی ہیں۔ 

سینیٹ الیکشن میں فاصلے کم کرنے کا موقعہ تھا لیکن ایسا ہو نا سکا اور جہانگیر ترین چینی بحران اسکینڈل کی تفتیشی دلدل میں مزید پھنس گئے۔ سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں کہ پارٹی میں ان کے مخالفین نے عمران خان کو یقین دلانے کی کوششش کی کہ جہانگیر ترین کی وجہ سے ہی گیلانی کی جیت ممکن ہوئی، مبینہ طور پر ان کا جہاز بھی گیلانی کے لیے استعمال ہوا۔ اس کے برخلاف ان کے حامیوں کا دعوی ہے کہ ترین صاحب نے سینٹ الیکشن میں حکومت کی جیت کے لیے کام کیا۔

اب اربوں کی مبینہ ہیرا پھیری کے الزامات میں جہانگیر ترین، ان کے بیٹے علی اور صاحبزادیوں کے خلاف مقدمات درج کر دیےگئے ہیں۔ جہانگیر ترین اسے انتقامی کاروائی قرار دے رہے ہیں۔’’میں تو دوست تھا۔ مجھے دشمنی کی طرف کیوں دھکیل رہے ہو؟‘‘ جہانگیر ترین کا عمران خان کے لیے چبھتا ہوا پیغام لیکن ساتھ ہی پارٹی میں اپنی طاقت کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔

ضمانت لینے جانا ہو یا اپنی رہائش گاہ پر عشائیہ، تحریک انصاف کے اپنے حمایتی قومی اور پنجاب اسمبلی کے اراکین کے جھرمٹ میں نظر آرہے ہیں۔ اشارہ کہ وہ آنے والے دنوں میں سیاسی میدان میں سرگرم رہنا چاہتے ہیں۔ سب کو علم ہے کہ وفاق اور پنجاب حکومت اتحادیوں اور چند ووٹوں کے فرق سے قائم ہے۔ کیا اسے دھمکی سمجھا جائے یا مصیبتوں میں گھرے طاقتور سیاستدان کی ایک جوابی سیاسی چال یا عمران خان حکومت کے لیے خطرہ؟

عمومی طور پر جہانگیر ترین جیسے صنعت کار یا سرمایہ دار چاہے جتنے طاقتور ہوں، بڑی سیاسی یدھ نہیں لڑتے اور اپنی جاگیروں کو انتقام کی بھینٹ نہیں چڑھاتے۔ کسی بڑے سیاسی سہارے یا بڑے اشارے کے وقت کا انتظار کرتے ہیں۔ بغاوت کا اعلان بھی آخری آپشن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اگر اختلافات نے شدت اختیار کی تو جہانگیر ترین کا عمران خان کے اقتدار کے اس جنم میں ساتھ ممکن نظر نہیں آتا اور ان دو سیاسی ہم سفروں کی مستقبل میں بھی سیاسی راہیں جدا ہی لگتی ہیں۔ 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں