جہاں گزشتہ برس خون کے سرخ نشانات تھے، وہاں گلدستے، رنگ برنگی پھول اور موم بتیاں پڑیں ہیں۔ بظاہر ہر کوئی اس کرسمس مارکیٹ میں خوش ہے لیکن اس یادگاری مقام پر پہنچ کر سبھی کے ہونٹوں پر دعائیں اور آنکھیں غمگین نظر آتی ہیں۔
اشتہار
یہ جرمن دارالحکومت برلن کی وہی کرسمس مارکیٹ ہے، جہاں ایک برس پہلے انیس عامری کے ٹرک حملے میں بارہ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
ایک ماں اپنے دو چھوٹے بچوں کے ہمراہ گزشتہ برس ہلاک ہونے والوں کے لیے دعا کرنے کے لیے حملے کے یادگاری مقام پر موجود ہے۔ آٹھ سالہ لورا ابھی سیاست، مذہب اور دہشت گردی جیسے الفاظ سے ناواقف ہے۔ اسے بس یہ پتا ہے کہ یہاں ایک ٹرک آیا تھا اور کئی لوگ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ سخت سردی سے بچنے کے لیے موٹی جیکٹ، ٹوپی اور ہاتھوں پر دستانے چڑھائے ہوئے ننھی سی بچی لاورا کا رُک رُک کر کہنا تھا، ’’یہ اچھی بات نہیں ہے کہ کسی دوسرے کو اس طرح تکلیف دی جائے۔‘‘
لاورا کو باقی کئی دیگر بچوں کی طرح کرسمس مارکیٹ کی رنگ برنگی روشنیاں، کھانے اور تحائف پسند ہیں۔ لیکن اس کرسمس مارکیٹ کے حوالے سے ’ٹرک اور ہلاکتیں‘ جیسے الفاظ شاید اس کے ذہن سے چپک چکے ہیں۔ لاورا ابھی چھوٹی ہے لیکن یہ واقعہ شاید وہ ساری عمر نہ بھلا سکے۔
برلن، کرسمس مارکیٹ پر ٹرک چڑھ دوڑا
جرمن دارالحکومت برلن میں پیر اُنیس دسمبر کی شام ایک ٹرک نے ایک کرسمس مارکیٹ روند ڈالی۔ اس واقعے میں کم از کم نو افراد ہلاک اور پچاس زخمی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
اس واققعے کے بعد پولیس نے وسطی برلن کی بُوڈا پیسٹر سٹریٹ اور اُس کے نواحی علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے
تصویر: Google Earth
امددی ٹیمیں فوری طور پر جائے حادثہ پہنچ گئیں اور زخمیوں کو طبی مراکز منتقل کر دیا گیا۔
تصویر: REUTERS/P. Kopczynski
پولیس نے علاقے میں موجود لوگوں سے کہا ہے کہ وہ فیس بک پر اپنے محفوظ ہونے کا بتا دیں، تاکہ ان کے پیاروں کو معلوم ہو کہ وہ خیریت سے ہیں۔
تصویر: REUTERS/P. Kopczynski
پولیس کی جانب سے اس حملے کی بابت اطلاعات ٹوئٹر پیغامات کی صورت میں دی جا رہی ہیں۔ پولیس نے عوام سے کہا ہے کہ اس واقعے سے متعلق ویڈیوز کو شیئر کرنے سے اجتناب برتا جائے، کیوں کہ اس سے مختلف افراد کی ’پرائیویسی‘ پر حرف آ سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں سکیورٹی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں، تاہم انہوں نے اس بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں کہ آیا یہ واقعہ کوئی حملہ تھا یا نہیں۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
جرمن وزیر برائے انصاف ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات دہشت گردی کے مقدمات کرنے والے پراسیکیوٹرز کے سپرد کر دی گئیں ہیں۔ ماس نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں برلن میں کرسمس مارکیٹ پر ٹرک کی چڑھائی کو ’لرزہ خیز‘ واقعہ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
برلن پولیس کے مطابق کرسمس مارکیٹ میں لگے اسٹالوں پر چڑھ دوڑنے والے ٹرک کا ایک مسافر موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس واقعے میں ملوث ایک دوسرے مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ یہ تفتیش کی جا رہی ہے کہ آیا حراست میں لیا جانے والا شخص واقعی ٹرک کا ڈرائیور تھا یا نہیں۔
تصویر: REUTERS/F. Bensch
جرمن دارالحکومت برلن میں پیر اُنیس دسمبر کی شام ایک ٹرک نے ایک کرسمس مارکیٹ روند ڈالی۔ اس واقعے میں کم از کم نو افراد ہلاک اور پچاس زخمی ہو گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Zinken
پولیس نے وسطی برلن کی بُوڈا پیسٹر سٹریٹ اور اُس کے نواحی علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے اور ابتدائی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ سرِ دست یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا یہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کی جانے والی کوئی دہشت گردانہ کارروائی تھی، کوئی حادثہ تھا یا حملہ آور کے کچھ اور محرکات تھے۔
تصویر: REUTERS/F. Bensch
ابھی پولیس کی جانب سے باقاعدہ کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے تاہم عوام سے اپنے گھروں میں رہنے، پُر سکون رہنے اور قیاس آرائیوں سے گریز کرنے کے لیے کہا ہے۔
تصویر: REUTERS/P. Kopczynski
جرمن دارالحکومت برلن کے مرکزی علاقے میں واقع قیصر ولہیلم یادگاری چرچ کے قریب واقع اس کرسمس مارکیٹ کا ہزاروں لوگ رخ کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
12 تصاویر1 | 12
آج برلن کا درجہ حرارت تقریبا ایک سینٹی گریڈ ہے، ہلکی ہلکی بوندا باندی جاری ہے۔ کرسمس مارکیٹ کے ایک اسٹال سے روایتی جرمن موسیقی کی آواز آ رہی ہے۔ مارکیٹ کے ایک کونے میں بچوں کے لیے جھولے لگے ہوئے ہیں۔ ہوا میں مخصوص کھانوں اور کبابوں کی خوشبو بکھری ہوئی ہے۔ کچھ والدین اپنے بچوں کو تحائف لے کر دے رہے ہیں، کئی لڑکے لڑکیاں اپنے دوستوں کے ہمراہ آئے ہوئے ہیں۔ کھانے کے اسٹالز پر رش زیادہ ہے، کہیں خوش گپیاں جاری ہیں تو کہیں قہقہوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔
گزشتہ برس کے دہشت گردانہ حملے سے اس کرسمس مارکیٹ کی خوشیاں اور رونقیں ماند تو نہیں پڑیں لیکن جو کوئی بھی ان یادگاری پھولوں اور ہلاک ہو جانے والوں کے لیے لکھے ہوئے محبت بھرے پیغامات پڑھتا ہے، وہ تھوڑی دیر کے لیے غمگین ضرور ہو جاتا ہے۔
بہت سے لوگ چلتے چلتے رک رہے ہیں اور حملے کا نشانہ بننے والوں کے لیے دعا کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال کی نسبت اس کرسمس مارکیٹ میں جو سب سے بڑی تبدیلی آئی ہے، وہ یہاں کیے جانے والے سکیورٹی کے انتظامات ہیں۔ مارکیٹ کے ہر داخلی راستے پر سمینٹ سے بنی بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں اور پولیس اہلکار بھی جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ اس سال برلن بھر کی کرسمس مارکیٹوں میں سکیورٹی کے انتظامات کیوں زیادہ کیے گئے ہیں، اس بارے میں پولیس کمشنر مِلکے کا کہنا تھا، ’’یہ گزشتہ سال کے حملے کا اثر ہے، جگہ جگہ کھڑی رکاوٹوں سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ سکیورٹی اقدامات بڑھائے گئے ہیں۔ ہم نگرانی کا عمل کرسمس مارکیٹوں کے ختم ہونے تک جاری رکھیں گے۔ فی الحال دہشت گردی کا کوئی بھی خطرہ موجود نہیں ہے۔ لیکن گزشتہ سال کے حملے کی وجہ سے ہم کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں، ہمارے پاس کافی اہلکار موجود ہیں۔‘‘
لیکن ابھی تک کئی جرمن شہری ملکی پولیس پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ جرمن شہر اولڈن برگ کی ساٹھ سالہ خاتون انجیلیکا کا ہلاک ہونے والوں کے لیے دعا مانگنے کے بعد ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں یہ پھول اور مقام دیکھ کر افسردہ ہوں لیکن مجھے افسوس اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ ہماری پولیس اسے روک کیوں نہ سکی۔ اُسے (انیس عامری) کو کیوں وقت پر پکڑا نہیں گیا یا اسے ملک بدر کیوں نہیں کیا گیا؟‘‘
انیس عامری سن دو ہزار پندرہ کے وسط میں بطور مہاجر جرمنی پہنچا تھا تاہم اس کی پناہ کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔ تیونس کے اس شہری نے ایک درجن سے زیادہ مختلف ناموں کے ساتھ شناختی دستاویزات بنا رکھی تھیں۔ اگرچہ حکام اُسے جبری طور پر اُس کے وطن واپس بھیجنا چاہتے تھے، لیکن اُس کے پاس ایسی دستاویزات تھیں، جن کے تحت اُسے مزید اٹھارہ ماہ تک جرمنی میں قیام کی اجازت حاصل تھی۔
انیس عامری اس ٹرک حملے کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا اور بعدازاں اطالوی شہر میلان کے نواح میں پولیس نے اسے دو طرفہ فائرنگ میں ہلاک کر دیا تھا۔ گزشتہ برس اس حملے کے بعد جرمنی میں مہاجرین اور مسلمانوں کے خلاف جذبات میں واضح اضافہ ہو گیا تھا۔
چالیس سالہ اولیور نے پچھلے سال بھی اس کرسمس مارکیٹ میں اپنا کبابوں کا اسٹال لگایا تھا۔ گزشتہ برس کے حملے کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’میں بس اس حملے کے بارے میں یہ کہوں گا کہ یہ ایک انتہائی برا عمل تھا۔ جس نے بھی حملہ کیا تھا، وہ ٹھیک نہیں تھا اور یہ عمل بند ہونا چاہیے۔ مذہب تو مذہب ہوتا ہے۔ ہر کسی کا اپنا اپنا مذہب ہے۔ یہ اہم بات نہیں ہے کہ میں مسلمان، مسیحی یا کوئی اور ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ انسانوں کا قتل نہیں ہونا چاہیے، یہ انتہائی قابل مذمت ہے۔‘‘
برلن شہر کا ہی رہائشی چھبیس سالہ اولیور فلپ اپنی دوست کے والدین کے ساتھ آج خصوصی طور پر یہاں آیا ہے۔ اس کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ ہلاک ہونے والوں کو بھلایا نہ جائے، ’’ایک سال مکمل ہونے والا ہے۔ اس موقع پر ہمیں یہ پیغام دینا چاہیے کہ ہم خوفزدہ نہیں ہیں۔‘‘
جرمنی میں دہشت گردی کے منصوبے، جو ناکام بنا دیے گئے
گزشتہ اٹھارہ ماہ سے جرمن پولیس نے دہشت گردی کے متعدد منصوبے ناکام بنا دیے ہیں، جو بظاہر جہادیوں کی طرف سے بنائے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sohn
لائپزگ، اکتوبر سن دو ہزار سولہ
جرمن شہر لائپزگ کی پولیس نے بائیس سالہ شامی مہاجر جابر البکر کو دو دن کی تلاش کے بعد گرفتار کر لیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ برلن کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ اس مشتبہ جہادی کے گھر سے دھماکا خیز مواد بھی برآمد ہوا تھا۔ تاہم گرفتاری کے دو دن بعد ہی اس نے دوران حراست خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
آنسباخ، جولائی سن دو ہزار سولہ
جولائی میں پناہ کے متلاشی ایک شامی مہاجر نے آنسباخ میں ہونے والے ایک میوزک کنسرٹ میں حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ اسے کنسرٹ کے مقام پر جانے سے روک دیا گیا تھا تاہم اس نے قریب ہی خودکش حملہ کر دیا تھا، جس میں پندرہ افراد زخمی ہو گئے تھے۔ اس کارروائی میں وہ خود بھی مارا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/D. Karmann
وُرسبُرگ، جولائی سن دو ہزار سولہ
اکتوبر میں ہی جرمن شہر وُرسبُرگ میں ایک سترہ سالہ مہاجر نے خنجر اور کلہاڑی سے حملہ کرتے ہوئے ایک ٹرین میں چار سیاحوں کو شدید زخمی کر دیا تھا۔ پولیس کی جوابی کارروائی میں یہ حملہ آور بھی ہلاک ہو گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Hildenbrand
ڈوسلڈورف، مئی سن دو ہزار سولہ
مئی میں جرمن پولیس نے تین مختلف صوبوں میں چھاپے مارتے ہوئے داعش کے تین مستبہ شدت پسندوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ پولیس کے مطابق ان میں سے دو جہادی ڈوسلڈوف میں خود کش حملہ کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hitij
ایسن، اپریل سن دو ہزار سولہ
رواں برس اپریل میں جرمن شہر ایسن میں تین مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک سکھ ٹیمپل پر بم حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
ہینوور، فروری سن دو ہزار سولہ
جرمنی کے شمالی شہر میں پولیس نے مراکشی نژاد جرمن صافیہ ایس پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے پولیس کے ایک اہلکار پر چاقو سے حملہ کرتے ہوئے اسے زخمی کر دیا تھا۔ شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس سولہ سالہ لڑکی نے دراصل داعش کے ممبران کی طرف سے دباؤ کے نتیجے میں یہ کارروائی کی تھی۔
تصویر: Polizei
برلن، فروری دو ہزار سولہ
جرمن بھر میں مختلف چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران پولیس نے تین مشتبہ افراد کو حراست میں لیا تھا، جن پر الزام تھا کہ وہ برلن میں دہشت گردانہ کارروائی کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ ان مشتبہ افراد کو تعلق الجزائر سے تھا اور ان پر شبہ تھا کہ وہ داعش کے رکن ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اوبراُرزل، اپریل سن دو ہزار پندرہ
گزشتہ برس فروری میں فرینکفرٹ میں ایک سائیکل ریس کو منسوخ کر دیا گیا تھا کیونکہ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ اس دوران شدت پسند حملہ کر سکتے ہیں۔ تب پولیس نے ایک ترک نژاد جرمن اور اس کی اہلیہ کو گرفتار کیا تھا، جن کے گھر سےبم بنانے والا دھماکا خیز مواد برآمد ہوا تھا۔