'جیش محمد، لشکر طیبہ‘، دہشت گرد تنظیمیں ہیں، برکس اعلامیہ
صائمہ حیدر
4 ستمبر 2017
چین اور بھارت سمیت پانچ اہم ابھرتی ہوئی معیشتوں نے دہشت گردی کے خلاف تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے ایک اعلامیہ جاری کیا ہے۔ اس اعلامیے میں شامل دہشت گرد تنظیموں میں پاکستان میں قائم چند تنظیمیں بھی شامل ہیں۔
اشتہار
جنوب مشرقی چینی شہر شیامن میں ہوئے برکس ممالک کے اجلاس کے بعد دہشت گرد گروپوں کے حوالے سے جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں پاکستان میں قائم مبینہ عسکریت پسند تنظیموں ’جیش محمد اور لشکر طیبہ‘ کے نام بھی شامل ہیں۔ اس پیش رفت کو بھارت کی سفارتی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔ شیامن ڈیکلیریشن میں شامل دیگر دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں القاعدہ کا نام بھی ہے۔
چین نے، جو پاکستان کا اہم اتحادی ہے، اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی بین کی گئی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کا نام شامل کرنے کی بھارتی کوششوں کو بارہا روکا ہے۔ بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان عسکریت پسندوں کو پناہ گاہ اور بھارت کی سر زمین پر حملوں کے لیے تربیت فراہم کرتا ہے۔
چین سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے اور اسے ویٹو کا حق بھی حاصل ہے۔ بھارت اور چین متنازعہ سرحدی علاقوں سے افواج کے فوری انخلا پر حال ہی میں متفق ہوئے ہیں اور قریب دس ہفتوں سے دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کے خاتمے نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی برکس سمٹ میں شمولیت کی راہ ہموار کی ہے۔
شیامن اعلامیے میں افغانستان میں مبینہ طور پر سرگرم حقانی نیٹ ورک اور مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ کے حوالے سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کی ایک اہلکار پریتی سارن کا کہنا ہے کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ برکس اجلاس میں دہشت گرد تنظیموں کے ناموں کو دستاویز کی شکل دی گئی ہے اور یہ بہت اہم پیش رفت ہے۔ سارن نے بھارتی فوجوں کے متنازعہ سرحدی علاقے سے انخلا اور چین کے پاکستان میں قائم مبینہ دہشت گرد گروپوں کو فہرست میں شامل کرنے کے درمیان کسی بھی تعلق سے انکار کیا ہے۔
شیامن اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اقوام کو دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بین الاقوامی قانون کے مطابق لڑنے کے لیے متحد ہونا چاہیے تاہم ساتھ ہی ملکوں کی خود مختاری میں مداخلت نہ کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ برکس (BRICS) میں چین، بھارت، جنوبی افریقہ، روس اور برازیل شامل ہیں۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔