1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سائنسامریکہ

جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ اور نئی دنیاؤں کی تلاش

23 جون 2024

دنیا بھرکے ماہرین فلکی طبیعیات ایک طویل عرصے سے زمین سے مشابہت رکھنے والے ایسے سیاروں کی تلاش میں ہیں، جہاں زندگی ممکن ہو۔ آئیے جانتے ہیں کہ جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ ان "ایلیئن ورلڈز" کی تلاش میں کس طرح معاونت کر سکتی ہے۔

James Webb Space Telescope entdeckt ein "Fragezeichen" in Herbig-Haro 46/47
تصویر: CC 4.0/NASA, ESA, CSA, J. DePasquale (STScI)

 کیا زمین ہی کائنات کا ایسا واحد سیارہ ہے، جہاں زندگی کا وجود ہے؟ یا کہیں اور کسی سیارے پر  بھی کوئی مخلوق بستی ہے؟ یا خورد بینی حیات کی صورت میں جاندار کہیں اور بھی موجود ہیں؟سائنس دان ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے ایک طویل عرصے سے کوشاں ہیں۔

زمین سے مشابہت رکھنے والے سیاروں کو سائنسی اصطلاح میں"ایگزو  پلینٹس" کہا جاتا ہے۔ کچھ دہائیوں قبل تک ان سیاروں کی تلاش انتہائی مشکل تھی۔ ماہرین فلکیات نے  بلیک ہول اور  دور دراز کی کئی کہکشاؤں کی دریافت کے بعد سن 1992 میں نظام شمسی سے باہر پہلا ایگزو پلینٹ دریافت کیا تھا۔

گزشتہ دو عشروں میں بہتر ٹیکنالوجی اور طاقتور دور بینوں کی مدد سے زمین سے مشابہہ سیاروں کی دریافت میں کافی تیزی آئی ہے۔ دنیا بھر سے ماہرین فلکیات اب تک 5600 سے زائد ایگزو پلینٹس دریافت  کر چکے ہیں۔ 

ایگزو پلینٹس کیسے تلاش کیے جاتے ہیں؟

ڈاکٹر منزہ عالم ہبل اور جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ سے حاصل شدہ ڈیٹا کا تجزیہ کرنے والی اولین ٹیموں میں شامل رہ چکی ہیں۔ وہ فی الوقت سپیس ٹیلی سکوپ سائنس انسٹی ٹیوٹ میری لینڈ سے وابستہ ہیں۔

قدیم ترین مردہ کہکشاں کے بارے میں نئے انکشافات

ہبل اور جیمز ویب ٹیلی سکوپ مشن میں اہم کردار ادا کرنے والی نوجوان سائنسدان ڈاکٹر منزہ عالم

منزہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ایگزو پلینٹ ہمارے نظام شمسی کے اندر اور باہر زمین سے مشابہہ ایسے سیارے ہیں، جہاں زندگی کے آغاز اور نشونما کے لیے لازمی اجزاء جیسا پانی، ہائیدروجن، کاربن، نائٹروجن اور  دیگر نامیاتی اجزاء پائے جاتے ہوں۔

ایسے سیارے زمین کے سائز جتنے یا اس سے چھوٹے ہوتے ہیں اور زمین کی طرح اپنے ستارے (سورج) کے  گرد مخصوص مدار میں گردش کرتے ہیں۔

منزہ مزید بتاتی ہیں کہ ایگزو پلینٹس کو تلاش کرنے کے لیے دو طرح کے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں، جن میں ٹرانزٹ کا طریقہ زیادہ آسان ہے۔ اس طریقے میں سیارے سے آنے والی روشنی کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر منزہ کے مطابق جب کوئی سیارہ اپنے ستارے کے مدار میں گردش کرتا ہے تو اس کی روشنی سیارے کے ماحول میں سے گزر کر زمین تک پہنچتی ہے۔ اس روشنی کی مخصوص ویو لینتھ یا طول موج ہوتی ہے، جس کا انحصار سیارے کے ماحول میں موجود گیسوں پر ہوتا ہے۔ اس طرح ماہرین فلکیات کو سیارے کے ماحول میں موجود گیسوں اور دیگر کیمیکلز سے متعلق معلومات ملتی ہیں۔

جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی خصوصیت کیا ہے؟

لاؤرا کرائڈ برگ جرمن شہر ہائیڈل برگ میں واقع ماکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار ایسٹرونامی سے وابستہ ماہر فلکیات ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ جیمز ویب ٹیلی سکوپ انفراریڈ روشنی کو ڈیٹیکٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہبل اور دیگر طاقتور دوربینوں کی نسبت ماہرین نے اس کی مدد سے کم وقت میں زیادہ ایسے ایگزو پلینٹس دریافت کر لیے ہیں، جہاں پانی، کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین وغیرہ کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔

کرائڈ برگ کہتی ہیں کہ ماہرین پرامید ہیں کہ اگلے دس برسوں میں اس دوربین کی مدد سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ یہ سیارے کس طرح وجود میں آئے اور  آیا کوئی زمین کا جڑواں سیارہ بھی کہیں موجود ہے۔

اب تک کتنی دریافتیں ہوئی ہیں؟

ڈاکٹر منزہ عالم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ جیمز ویب ٹیلی سکوپ سے سن 2023 میں پہلا ایگزو پلینٹ (LHS475b) دریافت کیا گیا تھا۔ یہ سیارہ ہماری زمین کے سائز جتنا ہی ہے مگر یہ اس سے دو گنا زیادہ گرم ہے۔ 

کائنات سے متعلق ہماری سوچ بدلتی دوربین

03:03

This browser does not support the video element.

منزہ بتاتی ہیں کہ ابھی تک جیمز ویب دور بین سے قدرے ٹھنڈے اور زمین کے سائز جتنے سیارے دریافت نہیں ہو سکے ہیں۔ اس کی مدد سے اب تک جو گرم سیارے دریافت ہوئے ہیں انھیں"ہاٹ جیوپیٹرز" کہا جاتا ہے۔ جیمز ویب دور بین سے ان ہاٹ جیوپیٹرز کے ماحول کی طبعی اور کیمیائی خصوصیات سے متعلق بہت سی اہم معلومات حاصل ہوئی ہیں۔

منزہ بتاتی ہیں کہ جیمز ویب دور بین سے سیارے کا جو سپیکٹرم یا طیف (روشنی کے رنگوں کی پٹی) حاصل ہوتا ہے، اس کے تجزیے کے دوران اس سے پہلے سے دریافت شدہ ایگزو پلینٹس کے ڈیٹا اور مختلف ماڈلز سے اس کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح معلوم کیا جاتا ہے کہ سیارے کے ماحول میں میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود ہیں یا نہیں۔

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی پہلی رنگین تصویر، کائنات کے نئے رازوں سے پردہ اٹھنے کی امید

جیمز ویب ٹیلی سکوپ کائنات کے کون سے پوشیدہ رازوں سے پردہ اٹھائے گی؟

منزہ مزید وضاحت کرتی ہیں کہ اب تک دریافت ہونے والے کئی بہت چھوٹے سائز کے ایگزو پلینٹس کے موازنے سے معلوم ہوا کہ ان کا سرے سے کوئی ماحول ہی نہیں ہے۔ اسی طرح جب LHS475b سے حاصل شدہ ڈیٹا کا 2011 میں دریافت ہونے والے ایک سیارے Wasp 39b سے موازنہ کیا گیا تو خاص معلومات حاصل نہیں ہوئیں حالانکہ دونوں کے ڈیٹا میں کافی مطابقت تھی۔

منزہ کہتی ہیں کہ لیکن تحقیق یہیں ختم نہیں ہوئی، ان کی ٹیم مختلف امکانات پر غور کر رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ LHS475b  نامی سیارے کا ماحول زیادہ کثیف نہ ہو بلکہ پتلا ہو۔ ایک اور امکان یہ بھی ہے کہ یہ سیارہ  اپنے ستارے سے بہت زیادہ قریب ہو اور اس کے ماحول کی الگ خصوصیات ہوں۔

مستقبل میں کیا پیش رفت متوقع ہے؟

فوز صدیقی انسٹی ٹیوٹ آف سپیس سائنز اینڈ ٹیکنالوجی کراچی کے طالب علم اور محقق ہیں۔ وہ ایگزو پلینٹس کی دریافت میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ فوز نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ مستقل میں جیمز ویب دور بین  سے ہمارے نظام شمسی سے باہر " کاسمک شور لائن"  کی موجودگی سے متعلق اہم سوال کا جواب ملنے کی امید ہے۔

فوز بتاتے ہیں کہ یہ بظاہر ایک تصوراتی لکیر ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں کئی سیاروں کا اپنا مخصوص ماحول ہے جبکہ کئی دریافت شدہ ایگزو پلینٹس کا سرے سے کوئی ماحول ہی نہیں ہے۔ کاسمک شور لائن ان سیاروں کی حد بندی کرتی ہے۔

فوز مزید بتاتے ہیں کہ پاکستان میں تو اس حوالے سے کوئی خاص تحقیق نہیں ہو رہی مگر بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی تحقیق اور تجزیوں پر ان کی گہری نگاہ ہے۔ جیسا 8 مئی کو نیچر سائنس جرنل میں 55 cancri e نامی سیارے پر ایک تحقیق شائع ہوئی، جس کے لیے جیمز ویب دور بین سے ڈیٹا حاصل کیا گیا تھا۔

فوز بتاتے ہیں کہ یہ سیارہ ہمارے سورج کے مشابہہ ستارے کے گرد گردش کرتا ہے۔ نیز اس کے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور نائٹروجن  گیسیوں کی موجودگی کی تصدیق بھی ہوئی ہے۔ فوز صدیقی سمجھتے ہیں کہ جیمز ویب دور بین سے جلد معلوم کیا جاسکے گا کہ اس طرح کی کوئی کاسمک شور لائن ہماری کہکشاں میں کہیں اور بھی موجود ہے یا نہیں؟

امریکہ: نئی ویب خلائی دوربین سے پہلی تصاویر جاری

01:53

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں