جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کی پہلی رنگین تصویر جاری
12 جولائی 2022امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے اس تصویر کے بارے میں بتایا کہ یہ کائنات کا اب تک کا سب سے گہرا اور تفصیلی انفرا ریڈ نظارہ پیش کرنے والی ایسی رنگین تصویر ہے جس میں کہکشاوں کی ایسی روشنی دکھائی دیتی ہے جس کے زمین تک پہنچنے میں اربوں برس لگتے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن کو بھی ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ تصویر دکھائی گئی۔ بائیڈن نے اس تصویر کے بارے میں کہا، "یہ تصویر دنیا کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ امریکہ اب بھی بڑے کام کر سکتا ہے اور امریکی عوام، خصوصا ہمارے بچوں، کے لیے یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہم اپنی صلاحیت سے کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔"
امریکی صدر کا کہنا تھا،"ہم وہ ممکنات دیکھ سکتے ہیں جو آج سے پہلے کسی نے نہیں دیکھیں، ہم ان مقامات تک پہنچ سکتے ہیں جہاں آج تک کسی نے رسائی حاصل نہیں کی۔"
اکیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنسی منصوبہ
تقریباً 10ارب ڈالر کی رقم سے تیار کردہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ اب تک کا سب سے بڑا اور طاقت ور ٹیلی اسکوپ ہے۔ اسے گزشتہ برس دسمبر میں خلاء میں روانہ کیا گیا تھا۔ اسے اکیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنسی منصوبہ قرار دیا گیا تھا اور خلاء میں بھیجتے وقت یہ امید ظاہر کی گئی تھی کہ اسے خلاء کے نئے راز افشاں ہوں گے۔
جیمز ویب ٹیلی اسکوپ سے اتاری گئی تصویر جاری کرنے کے موقع پر صدر بائیڈن اور ناسا کے سربراہ بل نیلسن کے علاوہ نائب صدر کمالا ہیرس بھی موجود تھیں۔ مزید تصاویر مختلف خلائی ایجنسیوں کے سربراہوں کی موجودگی میں منگل کے روز جاری کی جائیں گی۔
بل نیلسن نے بتایا کہ جو تصویر دکھائی جارہی ہے وہ 4.6ارب سال پرانے کہکشاوں کے گروپ SMACS 0723 کی ہے۔ کہکشاوں کے اس گروپ کا مجموعی وزن کشش ثقل لینس کی طرح کام کرتا ہے اور اس کے پیچھے موجود کہکشاوں سے آنے والی روشنی کو پھیلا دیتا ہے۔
ناسا کے سربراہ نیلسن نے کہا کہ تصویر میں جو روشنیاں دکھائی دے رہی ہیں ان میں سے کم سے کم ایک 13 ارب سال پہلے کی ہے۔ یعنی بگ بینگ سے صرف 80 کروڑ سال بعد کی۔ سائنس دانوں کا قیاس ہے کہ کائنات کا وجودایک زبردست دھماکے یعنی بگ بینگ کے نتیجے میں 13.8 ارب سال پہلے عمل میں آیا تھا۔
امریکی صدر بائیڈن نے کہا،"یہ ہمارے کائنات کی تاریخ کی ایک نئی جھلک ہے۔ میرے لیے یہ حیران کن ہے۔"
نیلسن کا کہنا تھا کہ جیمز ویب نے جو تصویر اتاری ہے ان میں دکھائی دینے والی روشنیوں کا ہر نقطہ ہزاروں کہکشاوں کا گروپ ہے اور یہ ویسا ہی ہے جسے چاول کے ایک دانے کو ہم ایک ہاتھ کے فاصلے سے دیکھ رہے ہوں۔
نئے رازوں کے دریافت کی امید
ناسا کے سربراہ بل نیلسن نے بتایا کہ چونکہ روشنی 186000 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے اورجو روشنی آپ یہاں دیکھ رہے ہیں وہ 13 ارب سال کی مسافت طے کر کے یہاں تک پہنچی ہے۔"لیکن ہم اس سے بھی پیچھے جا رہے ہیں کیوں کہ یہ تو صرف پہلی تصویر ہے۔ ہم تقریبا ً13 ارب سال پیچھے تک جا رہے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ کائنات 13 اشاریہ آٹھ ارب سال پرانی ہے تو دراصل ہم کائنات کے آغاز پر پہنچ رہے ہیں۔"
جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کو یوں تو آسمان میں ہر قسم کے مشاہدہ کے لیے خلاء میں بھیجا گیا تھا تاہم اس کے دو اہم مقاصد بتائے گئے تھے۔ پہلا دور افتادہ سیاروں کا جائزہ لینا اور یہ طے کرنا کہ آیا وہ انسانی رہائش کے قابل ہیں یا نہیں اور دوسرا کائنات میں سب سے پہلے چمکنے والے ستاروں کی تصاویر حاصل کرنا۔
ناسا نے جو تصویر جاری کی ہے وہ ٹیلی اسکوپ کے دوسرے مقصد کے حصول کی اس کی صلاحیت کی عکاسی کرتی ہے۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)