جینوآ پل کا انہدام، اٹلی نے ہنگامی حالت نافذ کر دی
16 اگست 2018
اطالوی وزیراعظم جوزیپے کونٹے نے جینوآ میں ایک پل کے انہدام کے واقعے کے بعد شہر میں ایک سال کے لیے ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سانحے کی وجوہات اب تک واضح نہیں ہیں، تاہم متعدد امکانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
اشتہار
اطالوی امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ بدھ کی رات کو بھی اس پل کے ملبے کو ہٹانے کا کام جاری رہا اور اب بھی یہ امید کی جا رہی ہے، کہ شاید اس ملبے تلے دفن کسی شخص کو زندہ بچا لیا جائے۔ فی الحال یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس پل کے قریب سو میٹر کے حصے کے انہدام کی وجہ کیا رہی۔ اس بڑے پل کو جینوآ شہر کا ’بروکلین برج‘ بھی کہا جاتا تھا۔ یہ پل منگل کو اس وقت گرا، جب اس علاقے میں شدید بارش کا سلسلہ جاری تھا، جب کہ حادثے کی وجہ سے اس پل کو استعمال کرنے والی کئی گاڑیاں 45 میٹر کی بلندی سے گر گئیں۔
وزیرداخلہ ماتیو سالوینی نے کہا ہے کہ اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے کہ اس پل کے ملبے تلے کتنے افراد دفن ہیں، تاہم انہوں نے بتایا کہ قریب ایک ہزار امدادی کارکن ملبے کو ہٹانے اور بچ جانے والے افراد کی تلاش کے کام میں مصروف ہیں۔
بدھ کو کیا کچھ ہوا
حکام کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 39 ہو گئی ہے۔
اس واقعہ میں 16 افراد زخمی ہوئے، جن میں سے نو کی حالت تشویش ناک ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس پل کے قریب واقع قریب 630 اپارٹمنٹس کو خالی کرا لیا گیا ہے۔ اس کی وجہ اس پل کے باقی ماندہ حصے کے استحکام کی بابت شکوک و شبہات کو قرار دیا گیا ہے۔
اطالوی وزیر ٹرانسپورٹ نے اس پل کی مینیجر کمپنی آٹوز ٹریڈ پر اتالیہ کے سینیئر عہدیداروں کو طلب کیا ہے اور ان سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس کمپنی کا کہنا ہے کہ پل کے انہدام سے قبل اس پل کا باقاعدگی سے معائنہ کیا جاتا رہا تھا اور حکومت کو معائنے کے نتائج فراہم کیے جاتے رہے تھے۔ اس کمپنی کا موقف ہے کہ پل کی مرمت کے کام کی باقاعدہ اجازت وزارت ٹرانسپورٹ سے لی گئی تھی۔ وزیر ٹرانسپورٹ کے مطابق اس کمپنی کو لاکھوں یورو جرمانے کا سامنا ہو سکتا ہے۔
’آگ کی نگری‘ اٹلی کے ايک خوب صورت خطے کی سياہ حقيقت
اٹلی کے جنوب ميں کمپانيا کا خطہ لاجواب پکوان اور اپنے شاندار ساحلوں کے ليے معروف ہے۔ تاہم اس علاقے کے لوگوں ميں سرطان اور بچوں کی اموات کی شرح بھی انتہائی اونچی ہے جو اس کے مثبت پہلوؤں پر پردہ ڈال ديتی ہے۔
تصویر: Stefano Schirato
کمپانيا پر سياہ بادل
املافی کا ساحلی علاقہ اور پومپے کے آثار قديمہ ان درجنوں مقامات ميں سے چند ايک ہی ہيں جو کمپانيا کو خاص بناتے ہيں۔ اسی علاقے سے ’پيزا‘ دنيا بھر ميں مقبول ہوا تاہم اسی علاقے کے ايک حصے کو ’موت کی تکون‘ بھی کہا جاتا ہے۔ نيپلز و کاسيرٹا نامی شہروں کے بيچ ايک علاقہ ہے جہاں لوگ کوڑے کے بيچ گزر بسر کر رہے ہيں۔ انہيں زہريلی گيسوں ميں سانس لينا پڑتا ہے اور وہاں دستياب پينے کے پانی کا معيار بھی ناقص ہے۔
تصویر: Stefano Schirato
ایک اَن دیکھا قاتل
فوٹو گرافر اسٹيفانو شيراٹو نے ان ماحولياتی مسائل کی فوٹو گرافی سن 2015 ميں شروع کی تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ’’يہ سانحہ تيس برس سے وہيں کا وہيں ہے اور اس کی شروعات اس وقت ہوئی تھی جب کوڑے کرکٹ کو ماحول دوست طريقے سے ٹھکانے لگانے کے اخراجات سے بچنے کے ليے بين الاقوامی کمپنيوں نے مقامی سياستدانوں کے ساتھ معاہدے طے کيے تھے۔‘‘
تصویر: Stefano Schirato
غير فطری تبديلی
پچھلی چند دہائيوں کے دوران کئی ملين ٹن کچرا وہاں پھينکا گيا، جن پر سينکڑوں مکانات اور پورے پورے ديہات کھڑے ہو گئے۔ مقامی حکام نے ايک غير قانونی لينڈ فل پر ايک کيمپ کے قيام کی اجازت بھی دے دی۔ شيراٹو کا کہنا ہے، ’’جب ميں پہلی مرتبہ وہاں گيا، تو ميں يہ ديکھ کر حيران رہ گيا کہ کس طرح کوڑ کرکٹ کے ڈھير کے پہاڑ نمودار ہو گئے جو پہلے وہاں نہیں تھيں۔‘‘
تصویر: Stefano Schirato
’غير ضروری نسل‘
فوٹو گرافر اسٹيفانو شيراٹو نے ’آگ کی نگری‘ کے عنوان تلے اپنی تحقيق ميں کئی مقامی لوگوں سے اُن کی رائے لی۔ وہ بتاتے ہيں، ’’ميں ايسے بچوں سے مل چکا ہوں جو اپنے والدين کھو چکے ہيں اور ايسے والدين سے بھی مل چکا ہوں، جو اپنے بائیس ماہ تک کے بچے کھو چکے ہيں۔‘‘ شيراٹو، انا نامی ايک لڑکی کی کہانی بيان کرتے ہوئے بتاتے ہيں کہ اس کی بچی تندرست پيدا ہوئی پر دس ماہ کی عمر ميں وہ سرطان ميں مبتلا ہو گئی۔‘‘
تصویر: Stefano Schirato
معاملے کی تہہ تک پہنچنا
شيراٹو نے روزيٹہ نامی ايک ساٹھ سالہ عورت کے بارے ميں بتايا، جسے جب پتہ چلا کہ وہ سرطان ميں مبتلا ہے، تو اس نے تحقيق شروع کی۔ اس نے پتہ چلايا کہ اس کے کئی پڑوسی بھی اسی کيفيت کا شکار ہيں۔ اس نے ہر دروازہ کھٹکھٹايا اور معومات جمع کيں۔ روزيٹہ نے يہ تمام تر معلومات ايک کتاب ميں تحرير کيں، جو بعد ازاں اس مسئلے پر سے پردہ اٹھانے ميں کافی اہم ثابت ہوئی۔
تصویر: Stefano Schirato
بچنے کی صلاحيت
اس خطے کے ماحولياتی اور طبی مسائل پرشيدہ نہيں ہيں ليکن اٹلی کے نيشنل انسٹيٹيوٹ آف ہيلتھ نہ پہلی مرتبہ دو برس قبل ان مسائل کے متاثرہ علاقوں ميں موجود کچرے کے ڈھيروں سے تعلق کو تسليم کيا۔
تصویر: Stefano Schirato
مقامی لوگ علاقہ چھوڑنا بھی نہيں چاہتے
آلودگی اور کوڑے کرکٹ کے باوجود ’موت کی تکون‘ کے علاقے کے رہائشی اپنے مکانات نہيں چھوڑنا چاہتے۔ شيراٹو کے بقول مقامی لوگوں کو ملک کے ديگر حصوں ميں ملازمت ملنا مشکل ہے۔ اس کے علاوہ، جو لوگ وہاں پيدا ہوئے اور اپنی پوری پوری زندگياں وہيں گزار ديں، وہ اپنا علاقہ نہيں چھوڑنا چاہتے۔
تصویر: Stefano Schirato
کم علمی کوئی زبردست بات نہيں
دو سال قبل کيے گئے مطالعے کے بعد يہ معاملہ اب سياسی موضوع بن چکا ہے ليکن اس کے باوجود فی الحال کوئی حل سامنے نہيں آيا۔ شيراٹو کے بقول لوگ اب مسئلے سے واقف ہيں اور انصاف چاہتے ہيں۔ اسی ليے سياستدان اب اسے نظر انداز نہيں کر سکتے۔ فوٹو گرافر کا کہنا ہے کہ علاقے کو صاف کرنا بھی تاہم ايک بڑا مسئلہ ہے۔
تصویر: Stefano Schirato
بہتر مستقبل کی اميد
اسٹيفانو شيراٹو تين برس پر مبنی اپنی تحقيق کو تصاوير کی صورت ميں جاری کر رہے ہيں۔ اس کتاب کی اشاعت کے ليے درکار رقوم (https://crowdbooks.com/projects/terra-mala) پر جمع کی جاری ہيں۔
تصویر: Stefano Schirato
9 تصاویر1 | 9
ایک مہذب معاشرے کے لیے ایسا حادثہ ناقابل قبول
جینوآ کے پراسیکیوٹر فرانسِسکو کوزی نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ پل کے انہدام کی تفتیش جاری ہے اور اس سلسلے میں ’انسانی غلطی‘ کے معاملے پر توجہ مرکوز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بابت ڈیزائن میں خرابی سے لے کر اس پل کی جاری مرمت تک تمام امور کو بہ غور دیکھا جا رہا ہے۔
کوزی نے مزید کہا کہ فی الحال یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا ذمہ دار کون ہو سکتا ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ ’سانحہ حادثہ نہیں تھا‘۔ وزیراعظم کونٹے نے اس سانحے کو ’مہذب معاشرے کے لیے ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں تمام پلوں اور دیگر تعمیرات کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا، ’’ہم اب ایسا کوئی حادثہ دوبارہ رونما ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘