ستر سال قبل بارہ اگست کے دن دنیا نے جنگی جرائم کی روک تھام سے متعلق ’جینیوا کنوینشن‘ پر اتفاق کیا۔ اس معاہدے پر کس حد تک عمل ہوا اور یہ سمجھوتا آج کے حالات میں کتنا مؤثر ثابت ہوا؟
اشتہار
’جینیوا کنوینشن‘ دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ اس بین الاقوامی ہیومنٹیریئن قانون کا مقصد جنگی صورتحال میں انسانوں کے ساتھ بہتر سلوک یقینی بنانا ہے۔ تاہم بین الاقوامی کمیٹی برائے ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ یہ عالمی سمجھوتہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کارگر ثابت نہیں ہو رہا۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کینتھ روتھ کے مطابق شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج اور روسی فورسز شام میں گزشتہ آٹھ سالوں سے جاری خانہ جنگی میں دانستہ طور پر شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہیں، جو معاہدہ جینیوا کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
روتھ کے مطابق یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی میں سعودی فوجی اتحاد شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس لڑائی میں یمنی صدر منصور ہادی کی حامی ان افواج نے مساجد، بازاروں اور حتیٰ کہ سکولوں اور ہسپتالوں پر بھی بمباری کی ہے۔
اسی طرح میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ’فوجی کریک ڈاؤن‘ پر ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی سخت تحفظات کا اظہار کر چکی ہے۔ اقوام متحدہ نے تو یہاں تک بھی کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں ’نسل کُشی‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔
ان تمام تنازعات میں جن انسانی قوانین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، وہ تمام جینیوا کینوینشن میں شامل ہیں۔ ریڈ کراس سے وابستہ سابق وکیل ہیلن ڈیرہم اتفاق کرتی ہیں کہ ان کے ادارے نے جینیوا کنوینشن کے شقوں کو کئی مرتبہ اور مسلسل پامال ہوتے دیکھا ہے، جو کسی طور قابل قبول نہیں۔
ہیلن ڈیرہم کے مطابق ’اگر ان قوانین کو توڑا جا رہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ قوانین برمحل اور حسب موقع نہیں رہے‘۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بہت سے ایسے کیس ہیں، جن میں انہی قوانین کی وجہ سے جنگوں کے دوران انسانی عزت اور وقار کا تحفظ ممکن بنایا گیا۔
جینیوا کنوینشن کیا ہے؟
جینیوا کنوینشن پر ابتدائی کام سن اٹھارہ سو چونسٹھ میں ہوا۔ اس وقت اس کی توجہ کا مرکز جنگوں میں زخمی ہونے والے فوجیوں کے علاج معالجے اور ان کا خیال رکھنے تھا۔ ان دنوں ریڈ کراس کے بانی ہینری ڈونناٹ نے اس مجوزہ سجھوتے کا خاکہ تیار کیا۔ آنے والی دہائیوں میں مزید جنگیں ہوئیں اور اس معاہدے میں جنگی جرائم کے حولے سے مزید شقیں شامل کی جاتی رہیں۔ بلآخرطویل عالمی مذاکرات کے بعد جینیوا کنوینشن بارہ اگست سن انیس سو انچاس میں طے پا گیا۔
اس کنوینشن میں ایسے چار بین الاقوامی معاہدے شامل ہیں، جن کے تحت یہ یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جنگ کے دوران ایسے لوگوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے جو خود لڑائی میں ملوث نہ ہوں۔ ان میں شہری، طبی عملہ، جنگی قیدی اور ایسے سپاہی بھی شامل ہیں، جو لڑنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔
آج 196 ممالک اس کنوینشن کی توثیق کر چکے ہیں، جن میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی اس معاہدے کا مبصر رکن ہے۔
جنیوا کنوینشن پر عمل ایک چیلنج
شام کی خانہ جنگی، یمن کا تنازعہ اور میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے موضوعات ایسے ہیں، جن کے باعث اس بین لااقوامی معاہدے کے فعال ہونے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کئی ناقدین کے مطابق دراصل ان قوانین کو مناسب طریقے سے نافذ نہ کر سکنے کی وجہ سے زیادہ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو دنیا کے کئی ایسے خطے ہیں، جہاں ان قوانین کا مؤثر انداز میں نفاذ ہوا اور وہاں تنازعات میں انسانی وقار کو یقینی بنایا گیا۔ ہیومن رائٹس واچ سے منسلک روتھ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ ان قوانین کی بنیاد کو کوئی بھی چیلنج نہیں کر سکتا، ’’کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ شہریوں کو نشانہ بنانا یا بلاتخصیص فائر کرنا درست ہے۔ یہ بنیادی اقدار کا معاملہ ہے۔‘‘
روتھ کے مطابق اس معاہدے کے قوانین میں تبدیلی کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے نفاذ کے لیے زیادہ سیاسی عزم درکار تاکہ تنازعات میں شریک تمام فریقین یہ بات یقینی بنائیں کہ ان قوانین کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔
شامی خانہ جنگی: آغاز سے الرقہ کی بازیابی تک، مختصر تاریخ
سن دو ہزار گیارہ میں شامی صدر کے خلاف پرامن مظاہرے خانہ جنگی میں کیسے بدلے؟ اہم واقعات کی مختصر تفصیلات
تصویر: picture-alliance/dpa
پندرہ مارچ، سن دو ہزار گیارہ
مارچ سن ہزار گیارہ میں شام کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ عرب اسپرنگ کے دوران جہاں کئی عرب ممالک میں عوام نے حکومتوں کے تختے الٹ دیے، وہیں شامی مظاہرین بھی اپنے مطالبات لیے سڑکوں پر نکلے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ حکومت سیاسی اصلاحات کرے۔ تاہم پندرہ مارچ کو حکومتی فورسز نے درعا میں نہتے عوام پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں چار شہری مارے گئے۔
تصویر: dapd
اٹھائیس مارچ، سن دو ہزار گیارہ
شامی صدر بشار الاسد کا خیال تھا کہ طاقت کے استعمال سے عوامی مظاہروں کو کچل دیا جائے گا۔ پندرہ مارچ سے شروع ہوئے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اٹھائیس مارچ تک ساٹھ مظاہرین ہلاک کر دیے گئے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ ہی یہ مظاہرے شام بھر میں پھیلنے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اٹھارہ اگست، سن دو ہزار گیارہ
شامی حکومت کے خونریز کریک ڈاؤن کے جواب میں تب امریکی صدر باراک اوباما نے بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ اور امریکا میں تمام شامی حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم شامی صدر نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کر دیے اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی گئی۔
تصویر: AP
انیس جولائی، سن دو ہزار بارہ
جولائی سن دو ہزار بارہ میں حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ حلب تک پھیل گیا۔ وہاں مظاہرین اور حکومتی دستوں میں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہونا شروع ہو گیا۔ تب درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں بھی جھڑپوں میں شدت آ گئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔
تصویر: dapd
دسمبر، سن دو ہزار بارہ
برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کی قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اسد کی حامی افواج کے خلاف کارروائی میں سیریئن کولیشن سے تعاون بھی شروع کر دیا گیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیے۔ دوسری طرف اسد کے خلاف جاری لڑائی میں شدت پسند عسکری گروہ بھی ملوث ہو گئے۔ ان میں القاعدہ نمایاں تھی۔
تصویر: Reuters
انیس مارچ، سن دو ہزار تیرہ
اس دن خان العسل میں کیمیائی حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے چھبیس افراد مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر تعداد شامی فوجیوں کی تھی۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے مطابق یہ سارین گیس کا حملہ تھا۔ تاہم معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کارروائی کس نے کی تھی۔ حکومت اور باغی فورسز نے اس حملے کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی سال عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں نے بھی اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
ستائیس ستمبر، دو ہزار تیرہ
شامی تنازعے میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے دمشق حکومت کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ نہ بنایا تو اس کے خلاف عسکری طاقت استعمال کی جائے گی۔ تب صدر اسد نے ان خطرناک ہتھیاروں کا ناکارہ بنانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اسی دوران سیاسی خلا کی وجہ سے انتہا پسند گروہ داعش نے شام میں اپنا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
جون، سن دو ہزار چودہ
شامی شہر الرقہ پہلا شہر تھا، جہاں انتہا پسند گروہ داعش نے مکمل کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جون میں داعش نے اس شہر کو اپنا ’دارالخلافہ‘ قرار دے دیا۔ تب ان جنگجوؤں نے اسی مقام سے اپنے حملوں کا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔ بائیس ستمبر کو امریکی اتحادی افواج نے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/Yaghobzadeh Rafael
تئیس ستمبر، دو ہزار پندرہ
شامی تنازعے میں روس اگرچہ پہلے بھی شامی بشار الاسد کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے تھا تاہم اس دن ماسکو حکومت شامی خانہ جنگی میں عملی طور پر فریق بن گئی۔ تب روسی جنگی طیاروں نے اسد کے مخالفین کے خلاف بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تاہم ماسکو کا کہنا تھا کہ وہ صرف جہادیوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/M. Japaridze
مارچ، سن دو ہزار سولہ
روسی فضائیہ کی مدد سے شامی دستوں کو نئی تقویت ملی اور جلد ہی انہوں نے جنگجوؤں کے قبضے میں چلے گئے کئی علاقوں کو بازیاب کرا لیا۔ اس لڑائی میں اب شامی فوج کو ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا تعاون بھی حاصل ہو چکا تھا۔ مارچ میں ہی اس اتحاد نے پالمیرا میں داعش کو شکست دے دی۔
تصویر: REUTERS/O. Sanadiki
دسمبر، سن دو ہزار سولہ
روسی جنگی طیاروں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے تعاون سے شامی فوج نے حلب میں بھی جہادیوں کو پسپا کر دیا۔ تب تک یہ شہر خانہ جنگی کے باعث کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ شہری علاقے میں شامی فوج کی یہ پہلی بڑی کامیابی قرار دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. al-Masri
جنوری، سن دو ہزار سترہ
امریکا، ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کی وجہ سے شامی حکومت اور غیر جہادی گروہوں کے مابین ایک سیزفائر معاہدہ طے پا گیا۔ تاہم اس ڈیل کے تحت جہادی گروہوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ ترک نہ کیا گیا۔
تصویر: Reuters/R. Said
اپریل، سن دو ہزار سترہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد حکم دیا کہ شامی حکومت کے اس فوجی اڈے پر میزائل داغے جائیں، جہاں سے مبینہ طور پر خان شیخون میں واقع شامی باغیوں کے ٹھکانوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا تھا۔ امریکا نے اعتدال پسند شامی باغیوں کی مدد میں بھی اضافہ کر دیا۔ تاہم دوسری طرف روس شامی صدر کو عسکری تعاون فراہم کرتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/US Navy
جون، سن دو ہزار سترہ
امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے فائٹرز نے الرقہ کا محاصرہ کر لیا۔ کرد اور عرب جنگجوؤں نے اس شہر میں داعش کو شکست دینے کے لیے کارروائی شروع کی۔ اسی ماہ روس نے اعلان کر دیا کہ ایک فضائی حملے میں داعش کا رہنما ابوبکر البغدادی غالباﹰ مارا گیا ہے۔ تاہم اس روسی دعوے کی تصدیق نہ ہو سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Huby
اکتوبر، دو ہزار سترہ
ستمبر میں کرد فورسز نے الرقہ کا پچاسی فیصد علاقہ بازیاب کرا لیا۔ اکتوبر میں اس فورس نے الرقہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی خاطر کارروائی کا آغاز کیا۔ مہینے بھر کی گھمسان کی جنگ کے نتیجے میں اس فورس نے سترہ اکتوبر کو اعلان کیا کہ جہادیوں کو مکمل طور پر پسپا کر دیا گیا ہے۔ اس پیشقدمی کو داعش کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تاہم شامی خانہ جنگی کے دیگر محاذ پھر بھی ٹھنڈے نہ ہوئے۔