بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے فرانس کے ساتھ جنگی جیٹ طیاروں کے معاہدے میں بد عنوانی کے الزامات پر استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں فرانس کے سابق صدر فرانسوا اولانڈ کے ایک بیان کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔
اشتہار
بھارتی سیاسی جماعتوں نے وزیر اعظم مودی کو سن 2016 میں فرانسیسی طیارہ ساز کمپنی داسُو سے چھتیس رفائیل جنگی طیاروں کی خریداری میں بد عنوانی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان طیاروں کی قیمت اصل سے زیادہ ادا کی گئی تھی اور خریداری کے عمل کو شفاف نہیں رکھا گیا تھا۔
حالیہ کچھ ماہ میں بھارت میں اپوزیشن جماعتوں نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ عشروں سے اس کام کا تجربہ رکھنے والی سرکاری کمپنی کی جگہ معروف بھارتی بزنس مین انیل امبانی کی کمپنی ’ریلائینس ڈیفنس‘ کو یہ کانٹریکٹ کیوں دیا گیا۔
جمعہ بیس ستمبر کو سابق فرانسیسی صدر اولانڈ کے ایک بیان کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ جب وہ صدارتی دفتر میں تھے تب اس معاہدے کے وقت بھارتی حکومت نے داسُو فرم پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ یہ سودا امبانی کی ’ریلائنس ڈیفنس‘ کو دے۔
اولانڈ نے یہ بات فرانسیسی نیوز ایجنسی میڈیا پارٹ سے گفتگو میں کہی۔ میڈیا پارٹ نے اولانڈ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا،’’ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ ہمیں یہ دباؤ قبول کرنا پڑا۔‘‘
دفاعی معاہدوں کے بھارتی قوانین کے تحت کسی بھی غیر ملکی کمپنی کو طے پانے والی اپنی ڈیل کے کم سے کم تیس فیصد حصے کی سرمایہ کاری لازمی طور سے بھارت میں کرنی چاہیے۔
لیکن رفائیل طیاروں کی خریداری کے لیے داسو نے بھارتی سرکاری کمپنی ’ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ‘ کے بجائے جو عشروں سے جنگی طیارے بنانے کا کام کر رہی ہے، ریلائنس کمپنی کا انتخاب کیا۔
کانگریس کے سینیئر رہنما آنند شرما کے مطابق،’’اولانڈ کے بیان کے بعد بد عنوانی کے خلاف جنگ کا نعرہ لے کر سن 2014 میں اقتدار میں آنے والے مودی کے پاس ملکی وزیر اعظم رہنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہا۔‘‘
ان الزامات کے تناظر میں وزیراعظم مودی کے دفتر اور ریلائنس کمپنی کی جانب سے ابھی تک کسی قسم کا کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔
ص ح / ع ا / نیوز ایجنسی
مستقبل کے کم خرچ اور تیز رفتار طیارے
مستقبل میں ایندھن کے حوالے سے کم خرچ ہوائی جہازوں کی ضرورت ہو گی۔ اس شعبے کے ماہرین ان جہازوں کی ساخت اور ہیئت کے بارے میں سوچ و بچار میں مصروف ہیں۔
تصویر: Bauhaus-Luftfahrt e.V.
کم سے کم مزاحمت
ماہرین کے بقول ہوائی جہاز کا صحیح ڈیزائن ہی ایندھن کی بچت میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس نظریے کو ذہن میں رکھتے ہوئے جرمنی میں فضائی اور خلائی سفر کے ادارے نے ایک blended-wing-body بنائی ہے۔ اس میں کیبن اور پروں کو آپس میں ضم کر دیا گیا ہے۔ یہ ڈیزائن دوران پرواز کم سے کم مزاحمت کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
تصویر: DLR
زہریلی گیسوں کے اخراج کے بغیر فضائی سفر
دنیا بھر میں فضائی آمد و رفت ضرر رساں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے تین فیصد اخراج کا سبب بنتی ہے۔ یہ شرح یورپی کمیشن کے لیے بہت زیادہ ہے۔ یورپی کمیشن نے اس شرح میں 2050ء تک ایک تہائی تک کی کمی کا مطالبہ کیا ہے۔ تصویر میں بجلی سے اڑنے والا یہ تصوراتی ہوائی جہاز اس ہدف کے حصول میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Bauhaus-Luftfahrt e.V.
طاقت ور برقی انجن
برقی طیاروں کو زمین سے فضا میں انتہائی طاقت ور انجنوں کی مدد سے ہی پہنچایا جا سکتا ہے۔ ان انجنوں میں کیبلز اور وائرنگ بجلی کی فراہمی میں کسی قسم کی رکاوٹ بھی پیدا نہیں کریں گے۔ لیکن اس کے لیے بیٹریوں کا وزن آج کل کے مقابلےمیں کم کرنا پڑے گا۔
تصویر: Bauhaus-Luftfahrt e.V.
جیٹ انجنوں کے بجائے بڑے بڑے پروپیلر
جدید طاقتور انجنوں کے مقابلے میں روٹرز یا گھومنے والے آلے زیادہ کارآمد ہیں۔ یہ بالکل ایک ٹربائن یا پروپیلر کی طرح کام کرتے ہیں۔ تجربوں سے ثابت ہوا ہے کہ اس طرح ایندھن کی مزید بیس فیصد تک بچت کی جا سکتی ہے۔ ان روٹرز کا قطر پانچ میٹر تک بنتا ہے۔
تصویر: DLR
کم خرچ لیکن پرشور
بہتر ہو گا کہ ان کھلے ہوئے روٹرز کو جہاز کے پچھلے حصے میں نصب کیا جائے۔ ایندھن کی بچت کے ساتھ ساتھ ایسے جہازوں میں سفر کرنا آج کل کے مقابلے میں قدرے سست رفتار ہو گا۔ یعنی عام ہوائی جہاز میں جو فاصلہ دو گھنٹوں میں طے کیا جا سکتا ہے ، اس کے لیے اس جہاز میں سوا دو گھنٹے لگیں گے۔ ایک نقصان یہ بھی ہے کہ یہ کھلے ہوئے روٹرز بہت زیادہ شور کا باعث بنیں گے۔
تصویر: DLR
ایندھن کی بچت کا بہترین ذریعہ
کفایت شعاری کے حوالے سے مستقبل کے مناسب ترین ہوائی جہاز کے پر بہت لمبے ہوں گے، یہ جسامت میں پتلا ہو گا اور اس میں بجلی سے چلنے والے انجن نصب ہوں گے۔ بیرتراں پیکارڈ اور آندرے بورشبرگ نے Solar-Impulse نامی ہوائی جہاز تخلیق کر کے یہ بات ثابت کر دی۔ تاہم یہ جہاز بہت کم وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ صرف ستر کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر سکتا ہے۔
تصویر: Reuters
بند ہو جانے والے وِنگ
پتلے اور طویل وِنگ ایرو ڈائنامکس کے لیے بہت کارآمد ہوتے ہیں۔ اس طرح ایندھن کی بھی بچت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے شمسی توانائی سے چلنے والے اس جہاز کے پر 63 میٹر لمبے ہیں۔ تاہم ایسے ہوائی جہاز ہر ہوائی اڈے پر نہیں اتر سکتے۔ اس مسئلے کا حل ’بند ہو جانے والے وِنگ‘ ہیں۔
تصویر: Bauhaus-Luftfahrt e.V.
دو منزلہ ہوائی جہاز
’باکس وِنگ‘ نامی اس جہاز کے پچھلے حصے میں بڑے بڑے پروپیلر یا پنکھے نصب کیے گئے ہیں اور اس کے پر انتہائی پتلے ہیں۔ اس ڈبل ڈیکر یا دو منزلہ ہوائی جہاز کا ڈیزائن ایک تیر کی طرح کا ہے اس وجہ سے ایندھن کی بچت بھی ہوتی ہے اور یہ تیز رفتار پرواز بھی کر سکتا ہے۔ اس کے ونگ چھوٹے ہیں تاکہ یہ جہاز عام ہوائی اڈوں پر بھی اتر سکے۔
تصویر: Bauhaus-Luftfahrt e.V.
صرف ایندھن کی بچت ہی کافی نہیں
مصروف افراد کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ ڈی ایل آر کا اسپیس لائنر راکٹ انجنوں والا مسافر بردار ہوائی جہاز ہے۔ 2050ء میں اس جہاز میں سفر کرتے ہوئے یورپ سے آسٹریلیا صرف 90 منٹ میں پہنچنا ممکن ہو گا۔