جی ایچ کیو پر حملہ: پلاننگ وزیرستان میں ہوئی، عباس
12 اکتوبر 2009پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کے مطابق 42 افراد کو یرغمال بنانے کے بعد دہشتگردوں کا سربراہ ڈاکٹر عقیل تحریک طالبان پاکستان کے محسود رہنما ولی الرحمان کے ساتھ بذریعہ ٹیلی فون پر رابطے میں تھا۔ ’’وہ بات کر رہا تھا کہ فدائین حملہ شروع ہو گیا ہے اور آپ سب دعا کیجئے ان کی کامیابی کےلئے اس قسم کی ہدایات وہ اپنے ساتھی کو دے رہا تھا۔ ڈاکٹر عقیل کہوٹہ کا رہائشی ہے جو کہ ٹیکسلا میں پیدا ہوا تھا ابتدائی تعلیم ٹیکسلا سے حاصل کی اور فوج کے AMC میڈیکل کور میں شامل ہوا تھا اور وہیں سے اس کا نام ڈاکٹر عقیل پڑا تھا۔ 2004ء میں یہ میڈیکل کور سے بھاگ گیا تھا اس کے بعد اس نے جیش محمد اور تحریک طالبان میں شامل ہو گیا تھا۔‘‘
جنرل اطہر عباس نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ اس حملے میں پانچ حملہ آوروں کا تعلق بھی وزیرستان سے تھا جبکہ باقی کا تعلق پنجاب سے۔
دہشتگردی سے متعلق امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کو ابتداء ہی سے اندازہ ہو گیا تھا کہ جنرل ہیڈ کوارٹر پر حملہ لشکر طیبہ اور جیش محمد کے فدائین حملوں سے ملتا جلتا ہے۔ یہ وہ حملے ہیں جن کا آغاز ان تنظیموں نے 1998ء میں بھارتی کشمیر میں سیکورٹی فورسز پر حملوں کے لئے کیا تھا اور جن کا بنیادی مقصد فوج کی صفوں میں انتشار پیدا کرنا تھا۔
جنرل اطہر عباس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عقیل کی قیادت میں دہشتگرد اپنے کم از کم 100ساتھیوں کی رہائی چاہتے تھے اور اس مقصد کےلئے وہ اعلیٰ فوجی قیادت کو یرغمال بنانے کے ارادے سے جنرل ہیڈ کوارٹر کی حدود میں داخل ہوئے۔ خیال رہے کہ 42 یرغمالی افراد کی رہائی کے لئے جن کمانڈوز نے دہشتگردوں کی توجہ بٹانے کےلئے رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں ان میں سے پانچ کمانڈوز اب تک زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے ہیں جبکہ اس آپریشن میں کل 11کمانڈوز اور فوجی ہلاک ہوئے۔
رپورٹ: امتیاز گل، اسلام آباد
ادارت: عدنان اسحاق