جی سیون سمٹ تاریخی تقسیم کا شکار، ٹرمپ کا راستہ سب سے جدا
شمشیر حیدر dpa/Reuters/AFP
27 مئی 2017
سات بڑی عالمی قوتوں کی سمٹ میں دہشت گردی سے نمٹنے کے معاملے پر اتفاق رائے دیکھا گیا۔ عالمی تجارت کے معاملے پر ٹرمپ نے کچھ لچک دکھائی لیکن تحفظ ماحول سے متعلق امریکا کا موقف سب سے الگ رہا۔
اشتہار
امریکی صدر ٹرمپ ہفتہ ستائیس مئی کے دن دو روزہ جی سیون سمٹ کے اختتام کے بعد اٹلی سے واپس امریکا روانہ ہو گئے۔ دنیا کی سات بڑی طاقتوں (جی سیون) کی سمٹ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ، عالمی تجارت اور تحفظ ماحول کے موضوعات نمایاں رہے۔ اٹلی کی خواہش کے باوجود مہاجرت کا موضوع اس سمٹ میں نمایاں توجہ حاصل نہ کر پایا۔
جی سیون سمٹ میں امریکا کے علاوہ باقی تمام ممالک کے مابین تحفظ ماحول کے موضوع پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکا پیرس کے عالمی ماحولیاتی معاہدے میں اپنی شمولیت برقرار رکھنے کے بارے میں ابھی تک غور کر رہا ہے۔ اجلاس کے بعد انہوں نے حسب معمول ٹوئٹر پر ایک پیغام جاری کیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے سے متعلق اپنا فیصلہ اگلے ہفتے کریں گے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جی سیون سمٹ کے دوران تحفظ ماحول سے متعلق مذاکرات کو ’انتہائی غیر تسلی بخش‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ امریکا پیرس کے عالمی ماحولیاتی معاہدے میں آئندہ بھی شامل رہے گا یا نہیں۔‘‘
میرکل کے مطابق پیرس معاہدہ انتہائی اہم ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’پیرس معاہدہ کوئی عام معاہدہ نہیں ہے بلکہ یہ موجودہ دور میں عالمگیریت کی ہیئت تشکیل دینے میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔‘‘
امریکا اور چین سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ کاربن گیسیں فضا میں خارج ہوتی ہے جس سے عالمی ماحول اور کرہ ارض کے درجہ حرارت پر شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ گزشتہ برس پیرس میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک عالمی ماحولیاتی معاہدہ طے پا گیا تھا۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایسی کئی اقدامات کیے ہیں، جن میں امریکی کمپنیوں کو کاربن گیسیوں کے اخراج میں رعایت دے دی گئی ہے۔
انگیلا میرکل کے برعکس نومنتخب فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اس سمٹ میں مایوس دکھائی نہ دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ ’سننے کی صلاحیت‘ رکھتے ہیں اور انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ امریکا پیرس معاہدے میں شامل رہے گا۔
اطالوی جزیرے سسلی میں تاؤرمینا کے مقام پر ہونے والی جی سیون سمٹ میں ایک بہت اہم موضوع عالمی تجارت بھی رہا۔ اس معاملے پر بھی ٹرمپ کا نقطہ نظر باقی ممالک سے مختلف دکھائی دیا۔ تاہم سمٹ کے اختتام پر جاری کردہ ایک چھ صفحاتی اعلامیے میں ٹرمپ کو لچک دکھانا پڑی۔
اعلامیے میں عالمی تجارتی معاملے میں ’پروٹیکشن ازم‘ کو رد کرنے پر اتفاق کیا گیا جو کہ ٹرمپ کی ’سب سے پہلے امریکا‘ کی پالیسی سے متصادم موقف ہے۔ تاہم ٹرمپ اس اعلامیے میں یہ جملہ شامل کرانے میں کامیاب رہے کہ آزاد تجارت کو ’منصفانہ اور متوازن‘ رکھا جائے گا۔
جرمن چانسلر میرکل کا بھی کہنا تھا کہ سات بڑے ممالک کے مابین عالمی تجارت کے موضوع پر گفتگو ’مناسب‘ رہی۔
جی سیون اجلاس میں اگر کسی مسئلے پر تمام ممالک متفق تھے تو وہ دہشت گردی سے نمٹنے کا موضوع تھا۔ برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے مانچسٹر میں دہشت گردی کے واقعے کے تناظر میں سمٹ کے دوران مطالبہ کیا تھا کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کمپنیوں کو انٹرنیٹ سے جہادی پروپیگنڈا مواد ہٹانے کا پابند بنایا جائے۔ تمام ممالک نے مے کی تائید کی۔ جاپان نے شمالی کوریا کے خلاف ’یکساں لہجہ‘ اختیار کرنے کی تجویز بھی دی تھی، اس معاملے پر بھی تمام ممالک کے مابین اتفاق پایا گیا۔
جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار، بیسٹ سیلر ادیب، ٹی وی اسٹار اور اب امریکا کے 45 ویں صدر کے طور پر حلف اٹھانے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کے کئی مختلف پہلو ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ان کا خاندان، ان کی ’سلطنت‘
اس تصویر میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پیاروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کی اہلیہ میلانیا، ان کی بیٹیاں ایوانکا اور ٹفینی، ان کے بیٹے ایرک اور ڈونلڈ جونیئر کے علاوہ ان کا نواسا کائے اور پوتا ڈونلڈ جونیئر سوئم ان کے ہمراہ ہیں۔ ان کے تینوں بچے ٹرمپ آرگنائزیشن میں سینئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1984ء
یہ تصویر 1984ء کی ہے۔ اس وقت ٹرمپ نے اٹلانٹک سٹی میں قائم ٹرمپ پلازہ میں ایک جوا خانہ کھولا تھا۔ یہ اُن کے ایسے سرمایہ کاری منصوبوں میں سے ایک تھا، جن کی وجہ سے ٹرمپ ارب پتی بنے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/M. Lederhandler
ٹرمپ کے سینئر
اپنے کاروبار کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کو ضروری سرمایہ ان کے والد فریڈرک کی جانب سے ملا تھا۔ انہوں نے ٹرمپ کو دس لاکھ امریکی ڈالر دیے تھے۔ 1999ء میں انتقال کے بعد ان کے والد کی چار سو ملین کی جائیداد ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ ان کے تین دیگر بچوں میں تقسیم ہوئی۔
تصویر: imago/ZUMA Press
کامیابی کی سیڑھیاں
ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت ہی جارحانہ انداز میں سرمایہ کاری کی۔ اس دوران انہیں نقصان بھی ہوا تاہم کامیابی نے آخر کار ان کے قدم چومے۔ کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے اثاثوں کی مالیت دس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
تصویر: Getty Images/D. Angerer
بہت اچھا، انتہائی خوبرو
یہ الفاظ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے فلاڈیلفیا کی وارہٹن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ہے۔ اس یونیورسٹی میں صرف اشرافیہ کے بچے ہی پڑھتے ہیں۔ یہاں سے انہوں نے 1968ء میں گریجویشن کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B.J. Harpaz
کیپٹن ٹرمپ
ڈونلڈ ٹرمپ کے والد نے انہیں تیرہ برس کی عمر میں ایک فوجی اسکول میں داخل کرا دیا تھا۔ اس کا مقصد اپنے بچے کو نظم و ضبط سکھانا تھا۔ ٹرمپ اس فوجی اسکول میں گزارے جانے والے وقت کو بہت یاد کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/
ویتنام جنگ
ڈونلڈ ٹرمپ ویتنام کی جنگ میں شرکت کرنے سے بچ گئے تھے۔ ان کی ایڑھی زخمی تھی، جس کے وجہ سے انہیں جنگ میں نہیں بھیجا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
پہلی ایوانا
1977ء میں ٹرمپ نے چیک جمہوریہ کی ماڈل ایوانا زیلنشکووا سے شادی کی، جن سے ان کے تین بچے ہوئے۔ تاہم اس دوران ٹرمپ کے معاشقوں کے افواہوں نے ان کی ازدواجی زندگی پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Swerzey
دوسری شادی
1990ء میں ٹرمپ اور ایوانا نے علیحدگی کا فیصلہ کرتے ہوئے طلاق لے لی۔ اس کے بعد انہوں نے خود سے سترہ سال چھوٹی مارلا نامی خاتون سے شادی کر لی۔ ان کی مشترکہ بیٹی کا نام ٹفینی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/J. Minchillo
خواتین کا جھرمٹ
ٹرمپ اپنی اہلیہ کے علاوہ بھی دیگر خواتین کے ساتھ عوامی مقامات پر دکھائی دیتے ہیں اور ایسا کرنا انہیں پسند بھی ہے۔ وہ اکثر بیوٹی مقابلوں میں جا کر نئی ماڈلز کے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں۔ 1996ء سے 2015ء کے دوران امریکا میں ہونے والا مس یونیورس مقابلہ بھی وہی منقعد کروایا کرتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Lemm
کاروبار کا طریقہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کتاب The Art of the Deal میں مشورے و تجاویز دی ہیں کہ کیسے کروڑ پتی بنا جاتا ہے۔ اس کتاب میں ان کی آب بیتی بھی شامل ہے۔ یہ کتاب بیسٹ سیلر تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Schwalm
سیاست میں قدم
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل سیاست میں کم ہی دلچسپی ظاہر کی تھی۔ سولہ جون 2015ء کو انہوں نے اچانک اعلان کیا کہ وہ ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار بننا چاہتے ہیں۔ ان کا نعرہ تھا: ’امریکا کو ایک مرتبہ پھر عظیم بنائیں۔‘ انتخابی مہم میں ان کے اہل خانہ ان کے ساتھ رہے۔ تاہم اس دوران مہاجرین، مسلمانوں، خواتین اور اپنے مخالفین کے خلاف انہوں نے سخت بیانات دیے اور نازیبا الفاظ بھی ادا کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lane
وقار والا منصب
اگلے برس جنوری میں ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے نئے مکین ہوں گے۔ کیا وہ دنیا کو پرامن بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ بہت سے لوگ تو یہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کی کہانی دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ شخص گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔