جی سیون سمٹ: ترقی پذیرملکوں کے لیے انفراسٹرکچر فنڈ کا اعلان
27 جون 2022دنیا کے امیر ترین ملکوں کے گروپ جی سیون کے رہنماؤں کی سمٹ جرمنی کے صوبے باویریا میں ایلپس کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ایلماء کے مقام پر ایک تاریخی قلعے میں اتوار کے روز شروع ہوگئی۔
جرمن چانسلر اولاف شولس کی میزبانی میں ہونے والی اس سمٹ کا آغاز تر قی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے مضمرات کا مقابلہ کرنے کے لیے 600 ارب ڈالر کے ایک انفراسٹرکچر فنڈ کے اعلان کے ساتھ ہوا۔ اسے چین میں بیلٹ اینڈ روڈ اقدام(بی آر آئی) منصوبے کا مغربی ملکو ں کی جانب سے جواب کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
یہ خیرات نہیں ہے
امریکی صدر جو بائیڈن نے اس موقع پر کہا، ''میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ کوئی مدد یا خیرات نہیں ہے۔ یہ ایک سرمایہ کاری ہے جس سے ہر ایک کوفائدہ پہنچے گا۔ اس میں امریکی عوام بھی اور دنیا کے دیگر ملکوں کے لوگ بھی شامل ہیں۔ اس سے ہماری معیشتوں کو فروغ حاصل ہوگا۔‘‘
نئے فنڈ کا مقصد کیا ہے؟
جی سیون کے اس نئے فنڈ کے تحت ماحولیاتی تحفظ کے پروگرامز کے علاوہ دیگر پراجیکٹوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس میں انگولا میں شمسی کھیتی پر دو ارب ڈالر، آئیوری کوسٹ میں ہسپتال کی تعمیر کے لیے 320ملین ڈالر اور جنوب مشرق ایشیا میں علاقائی توانائی کی تجارت کو فروغ دینے کے لیے 40 ملین ڈالرکی رقم شامل ہے۔
یورپی یونین کمیشن کی سربراہ ارزولا فان ڈیئر لائن نے کہا کہ جی سیون کی یہ پیش کش ایک 'پائیدار اور معیاری انفرااسٹرکچر‘ کی تعمیر کے لیے ہے۔
دریں اثنا وائٹ ہاؤس نے کہا کہ نئے منصوبے کے لیے فنڈز گرانٹ، وفاقی فنڈز اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اکٹھے کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ کثیر الجہت ترقیاتی بینکوں، ترقیاتی مالیاتی اداروں، خودمختار دولت فنڈز اور دیگراداروں سے سیکڑوں ارب ڈالر اضافی رقم حاصل کی جا سکتی ہے۔
بیجنگ پر الزامات
واضح رہے کہ چینی صدر شی جن پنگ نے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام (بی آر آئی) سن 2013 میں شروع کیا تھا۔ اس میں 100 سے زیادہ ممالک میں ترقی اور سرمایہ کاری کے اقدامات شامل ہیں۔ ان میں ریلوے نظام کی ترقی، بندرگاہوں اور شاہراہوں کی تعمیر سمیت متعدد منصوبے شامل ہیں۔
لیکن بیجنگ پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنے کھربوں ڈالر کے بی آر آئی پروجیکٹ کو آگے بڑھانے کے لیے کم آمدنی والے ملکوں کو ناقابل واپسی کی حد تک قرضوں کے جال میں پھنسا رہا ہے۔ چین کے اس اقدام کو اس کی تجارتی طاقت کو افریقہ، ایشیا اور یورپ تک وسعت دینے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔
بائیڈن اور شولس میں باہمی مذاکرات
پہلے روز کی میٹنگ کے بعد جرمن چانسلر اولاف شولس نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے یوکرین کے تنازع سے پیدا شدہ عالمی چیلنجز کے مدنظر سمٹ سے مثبت نتائج کی امید ظاہر کی۔
انہوں نے کہا، ''موجودہ جغرافیائی سیاسی صورت حال کی وجہ سے بین الاقوامی انفراسٹرکچر کو فروغ دینے کی ہماری کوششیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ اس لیے ہم نے ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے، کاربن بشمول گیسوں کے کم اخراج جیسے موضوعات پرتبادلہ خیال کیا جس سے روس کی جانب سے توانائی کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرنے کے اقدامات کا کم از کم عارضی جواب دینے میں ہمیں مدد مل سکے۔‘‘
شولس نے بائیڈن کے ساتھ باہمی بات چیت بھی کی۔ امریکی صدر نے دفاعی اخرات میں 100بلین ڈالر اضافہ کرنے کے جرمن چانسلر کے فیصلے کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی واشنگٹن کے انتہائی اہم اتحادیوں میں سے ایک ہے۔
ج ا/ ر ب (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز، اے ایف پی)