1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستیوکرین

جی سیون کا یوکرین سے اظہار یک جہتی

27 جون 2022

یوکرینی صدر وولودومیر زیلنسکی نے جی سیون رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ روسی جارحیت کو روکنے کی خاطر کییف کو مزید ہتھیار دیے جائیں۔

G7 Gipfel Schalte mit Selenskyj
تصویر: Tobias Schwarz/AFP

جی سیون کی سربراہی سمٹ میں شریک رہنما روس پر دباؤ بڑھانے کی خاطر ماسکو پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

جرمنی میں ہونے والی اس سمٹ کے دوسرے دن بروز پیر یوکرینی صدر وولودومیر زیلنسکی نے دنیا کے امیر ترین ممالک کے رہنماؤں پر زور دیا کہ موسم سرما سے قبل اس جنگ کو ختم کروا دینا چاہیے۔

ویڈیو لنک سے اس سمٹ میں شریک ہونے والے زیلنسکی کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک یوکرین کو مزید ہتھیار فراہم کریں تاکہ روسی جارحیت کا مقابلہ کیا جا سکے۔

روس پر دباؤ بڑھایا جائے گا

جی سیون کی اڑتالیسویں سمٹ کے دوران رکن ممالک متوقع طور پر یوکرین کی مزید عسکری مدد کے کسی منصوبے کو حتمی شکل دے سکتے ہیں۔

ساتھ ہی یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اس تین روزہ سمٹ کے دوران روسی گولڈ کی امپورٹ پر پابندی عائد کرنے کے کسی منصوبے پر اتفاق کر لیا جائے۔ اس اقدام کا مقصد ماسکو حکومت کو اقتصادی طور پر نقصان پہنچانا ہے تاکہ وہ دباؤ میں آ کر مذاکرات کی میز پر آ جائے۔

دنیا کے امیر ترین ملکوں کے گروپ جی سیون کے رہنماؤں کی سمٹ جرمنی کے صوبے باویریا میں ایلپس کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ایلماء کے مقام پر ایک تاریخی قلعے میں اتوار کے روز شروع ہوئی تھی۔

جی سیون کی اس سربراہی سمٹ کا اہم ایجنڈا یوکرین جنگ ہی ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق دنیا کے امیر ترین ترقی یافتہ سات صنعتی ممالک روسی صدر پوٹن کے ریونیوز کو براہ راست نشانہ بنانا چاہتے ہیں، جس کا داردمدار توانائی کی صنعت سے جڑا ہوا ہے۔

تاہم جی سیون کا یہ بھی کہنا ہے کہ روسی توانائی کی صنعت پر اس طرح کی پابندیاں عائد کی جائیں گی کہ یورپی یا دیگر ممالک کو نقصان نہ ہو۔ واضح رہے کہ بالخصوص یورپی ممالک تیل اور گیس کے لیے زیادہ تر انحصار روس پر ہی کرتے ہیں۔

پیر کے دن امریکا نے کہا کہ واشنگٹن حکومت روسی عسکری صنعت کو نشانہ بنائے گی تاکہ ماسکو کی فوجی صلاحیتوں کو کمزور بنایا جا سکے۔

جرمن چانسلر کا عزم

اس سمٹ کے میزبان جرمن چانسلر اولاف شولس نے کہا کہ یوکرین پر حملہ کرنے کی وجہ سے روس پر دباؤ بڑھانے کا عمل جاری رکھا جائے گا۔

شولس نے مزید کہا، ''جی سیون یوکرین کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتا ہے اور اس تنازعہ میں یوکرین کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ اس مقصد کی خاطر ہمیں سخت مگر ضروری فیصلے کرنا ہوں گے۔‘‘

جرمن چانسلر نے زور دیا کہ روسی صدر وولادیمیر پوٹن پر مزید دباؤ دیا جائے گا تاکہ وہ یہ جنگ ختم کر دیں۔ انہوں نے دہرایا کہ اس جنگ کا جلد خاتمہ ہو جانا چاہیے۔

یوکرین پر اعلامیہ

یوکرینی صدر کے خطاب کے بعد جی سیون سربراہی سمٹ میں یوکرین کے بارے میں ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں واضح کیا گیا کہ روسی جارحیت میں یوکرین کو ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی۔

اس اعلامیے کے مطابق جی سیون رکن ممالک یوکرین کو اقتصادی، سیاسی، عسکری، سفارتی اور انسانی مدد فراہم کرتے رہیں گے اور یہ کہ یہ بلاک یوکرینی عوام کے ساتھ ہے اور کییف کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔

مزید کہا گیا کہ سات ممالک کا یہ گروپ پرعزم ہے کہ روس پر بین الاقوامی پابندیوں کو پائیدار انداز میں سخت بنایا جائے گا اور ماسکو حکومت اور اس کے اتحادیوں (بیلاروس) پر سیاسی دباؤ بڑھانے کا عمل ترک نہیں کیا جائے گا۔

ایجنڈے میں شامل دیگر موضوعات

جی سیون کی اس سربراہی سمٹ کے ایجنڈے پر تحفظ ماحولیات کا موضوع بھی شامل ہے۔ کوشش ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت کی خاطر غریب ممالک کو خصوصی تعاون فراہم کرنے کے کسی ٹھوس طریقہ کار کو وضع کر لیا جائے۔

ابتدائی طور پر جی سیون رکن ممالک نے چھ سو بلین ڈالر کی رقوم دستیاب بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے، جس سے بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں کلائمیٹ چینج سے ہونے والی تباہ کاریوں کی روک تھام کے لیے ایک نیا انفراسٹریکچر بنایا جائے گا۔ کئی عالمی ماہرین اسے چین کی طرف سے شروع کیے جانے والے 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو‘ کا مغربی جواب قرار دے رہے ہیں۔

جی سیون سرابراہی اجلاس میں اس بلاک میں شامل سات ممالک برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور امریکا کے سربراہان حکومت ومملکت کے علاوہ یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن اور یورپی کونسل کے صدر شارک میشل بھی شریک ہیں۔

ع ب، ب ج (ڈی پی اے، اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

يورپ کا چينی سولر مصنوعات پر انحصار کم کرنے کا منصوبہ

02:38

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں