جی ٹوئنٹی اجلاس اس بار غیر معمولی اہمیت کا حامل کیوں ہے؟
7 جولائی 2017جی ٹوئنٹی گروپ کے دو روزہ اجلاس کا آغاز انتہائی سنگین صورتحال اور پُرتشدد مظاہروں کی چھاؤں میں ہوا ہے۔ جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قریب ایک ہزار شدت پسندوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن میں کم از کم ایک سو گیارہ پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ جبکہ زخمی مظاہرین کی تعداد کا نہیں بتایا گیا۔ ہیمبرگ شہر میں قریب 20 ہزار پولیس اہلکار بکتر بند گاڑیوں، ہیلی کاپٹروں اور نگرانی کرنے والے ڈرونز کے ساتھ تعینات ہیں۔ مظاہرین میں اقتصادی عالمگیریت کے مخالفین سمیت بہت سی سماجی تنظیموں کے کارکُن اور بائیں بازو کے شدت پسند بھی شامل ہیں۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کیننز کا استعمال کیا اور قریب 30 مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس بار جی ٹوئنٹی اجلاس کیوں اتنا سنگین ہو گیا ہے؟ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ اجلاس ایک ایسے وقت پر منعقد ہو رہا ہے جب جی ٹوئنٹی گروپ کے اراکین کے مابین متعدد عالمی سیاسی پالیسیوں کے حوالے سے شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔
شام کا بحران، قطر اور خلیجی ممالک کی صورتحال، مہاجرین کا بحران، آزاد تجارت، تحفظ ماحول کی پالیسی کا تنازعہ، غرضیکہ انتہائی اہم موضوعات جو اس اجلاس کے ایجنڈا میں شامل ہیں، اُن پر جی ٹوئنٹی گروپ بُری طرح منقسم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میزبانی کے فرائض انجام دینے والی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ان موضوعات پر مذاکرات کے کٹھن ہونے کا ذکر کرتے ہوئے پہلے ہی کہ دیا تھا کہ ’’دنیا اس وقت عدم سکون اور تقسیم کا شکار ہے۔‘‘
جرمن چانسلر میرکل تاہم بحیثیت میزبان اپنی تمام تر کوششیں کر رہی ہیں کہ اجلاس کے ایجنڈا پر مثبت بات چیت ہو۔ تاہم انہیں ان چیلنجز کا بخوبی اندازہ تھا اسی لیے اجلاس سے قبل انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھاکہ ’’ اُن کے لیے دہشت گردی، موسمیاتی تبدیلی، تحفظ تجارت اور ان جیسے مسائل اہم ترین موضوعات ہیں‘‘۔
سب سے اہم بات یہ کہ اختلاف رائے دنیا کے تین طاقتور مردوں کے مابین ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ترک صدر رجب طیب ایردوان، تینوں ہی ہیمبرگ میں موجود ہیں اور اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی ماحولیاتی پالیسی کے باعث تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ ٹرمپ کی جرمنی آمد سے پہلے خود امریکی ذرائع سے اس طرف نشاندہی ہو رہی تھی کہ ’’امریکی صدر ہیمبرگ آ کر کوشش کریں گے کہ وہ روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے مغربی دنیا کو استعمال کر سکیں۔‘‘
میرکل ٹرمپ کو تنہا بھی نہیں کرنا چاہتیں۔ وہ تحفظ ماحول کے سلسلے میں کہہ چُکی ہیں کہ وہ پیرس معاہدے کی تائید کرتی ہیں اور ساتھ ہی اس مسئلے کا ایک مشترکہ حل تلاش کرنا چاہتی ہیں۔‘‘ دیکھنا یہ ہے کہ آزاد تجارت اور تحفظ ماحول کے بارے میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کیا رُخ اختیار کرتے ہیں۔
انگیلا میرکل نہ صرف جی ٹوئنٹی کی میزبان ہیں بلکہ یورپ کی اقتصادی شہ رگ جرمنی کی سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مُدبر اور ٹھوس سیاستدان کی حیثیت سے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنا چاہتی ہیں۔ گرچہ انہیں مہاجرین کی سیاست کے ضمن میں کافی تنقید اور دباؤ کا سامنا ہے تب بھی میرکل کہہ چُکی ہیں کہ ’’جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس کے حوالے سے اُن کا ہدف یہ ہے کہ اس میں شریک تمام سربراہان مملکت وحکومت یہ اشارہ دیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ چکے ہیں اور انہیں ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘