جی ٹوئنٹی اجلاس: ’عالمی رہنماؤں میں عدم اتفاق‘
12 نومبر 2010خبررساں ادارے اے پی کا کہنا ہے کہ جی ٹوئنٹی کے اجلاس کے آغاز سے ہی وہاں مایوسی کی فضا چھائی دکھائی دیتی ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما سمیت وہاں پہنچنے والے تمام عالمی رہنما کرنسی اور تجارتی پالیسیوں پر اختلافات کے شکار ہیں۔ اے پی نے جی ٹوئنٹی کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ مندوبین کسی لائحہ عمل کی تیاری کے لئے رات بھر کام جاری رکھیں گے، تاکہ جمعہ کی نشست میں کوئی ٹھوس بات سامنے آ سکے۔
اس کے ساتھ ہی رکن ممالک کی کرنسی پالیسیاں بھی اس اجلاس کے ایجنڈے پر حاوی رہ سکتی ہیں۔ تاہم جمعرات کو اجلاس کے آغاز سے قبل امریکی صدر باراک اوباما نے شرکاء پر زور دیا کہ عالمی معیشت کی بحالی کے لئے مل کر کام کریں۔ انہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ اس حوالے سے کوئی بھی سمجھوتہ معاشی توازن اور پائیدار شرح نمو میں مدد دے گا۔ باراک اوباما نے امریکی معیشت کو سہارا دینے کے لئے 600 ارب ڈالر کی فراہمی کی اپنی پالیسی کا بھی دفاع کیا ہے۔
امریکی صدر نے سیول میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے بھی ملاقات کی۔ تاہم میرکل نے اس اجلاس کے پہلے روز کسی بھی ملک کے تجارتی خسارے یا سرپلس کو محدود کرنے کی امریکی تجویز رد کر دی۔ انہوں نے کہا، ’کرنٹ اکاؤنٹ خسارے یا سرپلس کے لئے حدبندی کرنے کا معاشی لحاظ سے کوئی جواز نہیں، یہ عمل سیاسی اعتبار سے بھی مناسب نہیں۔‘
اُدھر روس کے وزیر خزانہ الیکسی کُودرین نے کہا ہے کہ جی ٹوئنٹی گروپ میں میکرواکنامک پالیسی کے اہداف متعارف کرانے کے لئے اقدامات پر اتفاق ہو سکتا ہے۔ انہوں نے سیول میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا، ’ایسی تجاویز ایک روڈ میپ کے تحت تیار کی جائیں گی، جس کے ساتھ اس کے لئے ٹائم فریم بھی طے کیا جائے گا۔‘
خیال رہے کہ جی ٹوئنٹی گروپ کا خصوصی اجلاس پہلی مرتبہ کسی ایشیائی ملک میں ہو رہا ہے، جو عالمی معیشت کی بحالی اور مستقبل میں ایسے کسی بحران سے بچاؤ کے لئے عالمی کوششوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: کشور مصطفیٰ