جی ٹوئنٹی کے وزرائے خارجہ کا دو روزہ اجلاس آج سے جرمن شہر بون میں شروع ہو رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ کسی اہم کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں، اس لیے تمام نگاہیں ان پر مرکوز ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ سابق جرمن دارالحکومت بون میں منعقد ہونے والے اس دو روزہ اجلاس کے دوران ماحولیاتی آلودگی سے لے کر شامی بحران جیسے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ ساتھ ہی افریقہ پر بھی توجہ مرکوز کی جائے گی تاکہ مہاجرین کے بحران پر قابو پانے کی کوشش کی جا سکے۔ اس اجلاس کی اہم بات یہ بھی ہے کہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن پہلی مرتبہ کسی اہم اجلاس میں شریک ہو رہے ہیں۔
ناقدین کے مطابق جی ٹوئنٹی کے وزرائے خارجہ اس اجلاس کے حاشیے میں ٹلرسن سے یہ جاننے کی کوشش بھی کریں گے کہ ’امریکا پہلے‘ کا دنیا کے لیے کیا مطلب ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات میں کامیابی کے بعد عالمگیریت کے خلاف جاری کردہ اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’آئندہ سے سب سے پہلے امریکا ہو گا‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ شمالی امریکی آزادانہ تجارت کے معاہدے سمیت دیگر تجارتی معاہدوں پر نظر ثانی کریں گے تاکہ امریکا کے اندر روزگار کے مواقع بڑھائے جا سکیں۔
یورپ میں مہاجرین کا بحران کیسے شروع ہوا؟
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Mitrolidis
8 تصاویر1 | 8
اس تناظر میں کئی ممالک نے تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا جبکہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے بقول عالمی مسائل کے حل کے لیے بین الاقوامی حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی جبکہ عالمی مالیاتی مسائل سے نمٹنے کی خاطر تمام ممالک کو مشترکہ مؤقف اختیار کرنا ہو گا۔ اس مذاکراتی عمل سے قبل جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابرئیل نے بھی کہا کہ دنیا کو لاحق مسائل کے لیے حل کی خاطر کوئی ملک اکیلا کچھ نہیں کر سکتا ہے۔
جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن پہلی مرتبہ اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے بھی ملاقات کریں گے۔ روسی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں سفارتکار ’باہمی دلچپسی کے امور‘ پر تبادلہ خیال کریں گے، جو امریکا کی سابق حکومت کے دوران متاثر ہو گئے تھے۔
اس کانفرنس میں عالمی رہنما شام میں جاری خانہ جنگی اور مشرقی یوکرائن کے تنازعے کے علاوہ دیگر عالمی مسائل پر بھی گفتگو کریں گے۔ جی ٹوئنٹی کے مندوبین اس کانفرنس کے موقع پر اپنی ملاقاتیں بھی جاری رکھیں گے، جن میں باہمی تعلقات اور علاقائی مسائل پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔