جی ٹوئنٹی کے وزرائے خارجہ اپنی ایک ملاقات میں افریقہ میں غربت کے خاتمے کے لیے ایک متقفہ لائحہ عمل طے کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ دو روزہ کانفرنس سولہ فروری سے سابق جرمن دارالحکومت بون میں شروع ہو رہی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے جرمن حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ سولہ فروری بروز جمعرات شروع ہونے والی اس دو روزہ کانفرنس میں جی ٹوئنٹی کے وزرائے خارجہ کی کوشش ہو گی کہ افریقہ میں غربت کے خاتمے کے لیے ایک تعمیری بحث کی جائے۔ بتایا گیا ہے کہ اس دوران ایک منصوبے کے تحت افریقی ممالک کی حکومتوں کو مضبوط بنانے کی تجاویز پر بھی گفتگو ہو گی جبکہ ساتھ ہی وسائل سے مالا مال متعدد افریقی ممالک کی صلاحیتوں کو مکمل طور پر استعمال میں لانے کے حوالے سے بھی بات چیت کی جائے گی۔
دنیا کی بیس بڑی معیشتوں کے وزرائے خارجہ کے اس اجلاس کی میزبانی کرنے والے ملک جرمنی کی کوشش ہے کہ افریقی ممالک کے حالات بہتر بنائے جائیں تاکہ وہاں سے مہاجرت اختیار کرنے والے لوگوں کی تعداد میں کمی کی جا سکے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ جب تک مہاجرت کے اسباب کا قلع قمع نہیں کیا جائے گا، تب تک کسی بھی ذریعے سے مہاجرین کی یورپ آمد کے سلسلے کو روکا نہیں جا سکتا۔
یورپی یونین کی کوشش ہے کہ افریقی ممالک سے ہجرت کر کے یورپ آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ یہ امر اہم ہے کہ ان مہاجرین میں سے زیادہ تر ایسے افراد ہوتے ہیں، جو اقتصادی مقاصد کی خاطر ترک وطن کرتے ہیں۔ جرمن حکومت کہہ چکی ہے کہ افریقی ممالک کے اقتصادی و سماجی حالات بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں کے لوگ معاشی مقاصد کی خاطر اپنے ممالک کو خیرباد نہ کہیں۔
جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے کہا ہے کہ خارجہ پالیسی کا مطلب بحرانوں سے نمٹنے کی پالیسی نہیں ہے، اس لیے جی ٹوئنٹی کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ تنازعات اور بحرانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی خاطر ایک پالیسی ترتیب دیں۔ اس کانفرنس سے قبل انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مسائل کے پائیدار حل کے لیے ضروری ہے کہ ان عوامل کا خاتمہ کیا جائے، جو ان مسائل کو پیدا کرتے ہیں۔
یورپ میں مہاجرین کا بحران کیسے شروع ہوا؟
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Mitrolidis
8 تصاویر1 | 8
اس کانفرنس میں عالمی رہنما شام میں جاری خانہ جنگی اور مشرقی یوکرائن کے تنازعے کے علاوہ دیگر عالمی مسائل پر بھی گفتگو کریں گے۔ اس دوران جی ٹوئنٹی کے مندوبین اس کانفرنس کے حاشیے میں اپنی ملاقاتیں بھی جاری رکھیں گے، جن میں باہمی تعلقات اور علاقائی مسائل پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔
جی ٹوئنٹی کے وزرائے خارجہ کے اس کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور ان کے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف بھی شرکت کریں گے۔ علاوہ ازیں یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ فیدیریکا موگیرینی اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹریش بھی اس کانفرنس میں شریک ہوں گے۔ اس اجلاس میں افریقہ کی طرف سے نمائندگی Anthony Mothae Maruping کریں گے، جو افریقی یونین کے اقتصادی کمشنر ہیں۔
جی ٹوئنٹی ممالک میں انیس انفرادی ممالک ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، جرمنی، فرانس، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، روس، جنوبی افریقہ، سعودی عرب، ترکی، برطانیہ اور امریکا کے علاوہ یورپی یونین بھی شامل ہے۔ یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک اس گروپ کے انفرادی رکن نہیں ہیں۔ جرمنی میں ہونے والے اس اجلاس میں ہالینڈ، ناروے، سنگاپور، سپین اور ویت نام کے مندوبین بھی شامل ہوں گے۔