جی پی ایس سینسرز کے ذریعے اب زلزلے کی پیش گوئی ممکن؟
22 اکتوبر 2023زلزلوں کی قبل از وقت پیش گوئی کا موضوع طویل عرصے سے عالمی سطح پر روایتی زرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہے۔ اب دو فرانسیسی سائنسدانوں نے اس بحث کو سمیٹتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ انتہائی حساس جی پی ایس سینسرز کی مدد سے زلزلے کے جھٹکےسے دو گھنٹے قبل اس کی پیش گوئی کرنا ممکن ہوگا۔
زلزلوں کی قبل از وقت پیشن گوئی سے متعلق بحث کا آغاز ولندیزی محقق فرینک ہوگربیٹس کی پیش گوئی کے ساتھ ہوا۔ انھوں نے بلوچستان میں چمن فالٹ زون میں چھ سے زائد شدت کی زلزلے کی پیش گوئی کی تھی۔ اس کے چند دن بعد چمن سے تقریباﹰ 800 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع افغانستان کے صوبے ہرات میں شدید زلزلہ آیا، جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہو ئی ہے۔
ہوگر بیٹس کی پیش گوئی ناقابل قبول
دنیا بھر کے ماہرین ِ ارضیات کا ماننا ہے کہ ہوگر بیٹس کی پیش گوئی سائنسی پیمانوں پر پوری نہیں اترتی اور اسے پیش گوئی سے زیادہ امکان سمجھا جاتا ہے کیو نکہ اس میں مقام اور وقت کے متعلق واضح معلومات نہیں ہوتیں۔ اس بحث کو دو فرانسیسی جیو فزسٹ کوئنٹن بلیٹری اور جین میتھیو نوکیٹ نے سمیٹتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ انتہائی حساس جی پی ایس سینسرز کی مدد سے زلزلے سے دو گھنٹے قبل ٹیکٹونک پلیٹس کی حرکات کا جائزہ لے کر زلزلے کی پیش گوئی کرنا ممکن ہوگا۔ کوٹ ڈی ازور یونیورسٹی فرانس سے وابستہ ان محققین کی تحقیق رواں ماہ مؤقر جریدے سائنس میں شائع ہوئی ۔
نئی تحقیق کا پس منظر کیا ہے؟
کوٹ ڈی ازور یونیورسٹی کے جیو فزکسٹ کوئنٹن بلیٹری نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی تحقیق کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے زلزلوں کا بنیادی میکینزم جاننا ضروری ہے۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ زلزلہ اس وقت آتا ہے، جب زمین کی سب سے اوپری تہہ یا کرسٹ کے دو بلاکس کسی فالٹ لائن کے ساتھ مقفل (لاک) ہو جاتے ہیں۔
بلیٹری کے مطابق اس طرح ان بلاکس کے درمیان شدید تناؤ پیدا ہوتا ہے جو اس وقت تک جاری رہتا ہے، جب تک یہ پھسل کر دوبارہ ایک نارمل حالت میں نہیں آ جاتے۔ ارضیاتی ماہرین نے طویل تحقیق کے بعد پتا لگایا ہے کہ پھسلنے کا یہ عمل آہستہ آہستہ وقوع پزیر ہوتا ہے، جس کی رفتار اور شدت میں بتدریج اضافہ ہوتا ہے۔
کوئنٹن بلیٹری کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے پیشگی سگنلز کی علامات زیادہ تر انفرادی زلزلوں کے لیے دیکھی گئی ہیں۔ ان سے کبھی بھی ایسا سگنل نہیں ملا، جو تمام زلزلوں پرلاگو ہو سکے۔
فرانسیسی سائنسدانوں کی تحقیق
بلیٹری بتاتے ہیں کہ انھوں نےتحقیق کے شریک مصنف جیوڈیسٹسٹ جین میتھیو نوکیٹ کے ساتھ مل کر اس پر کافی سوچ بچار کی اور پھر دنیا بھر میں آنے والے سات سے زیادہ شدت کے 90 زلزلوں کا ڈیٹا جمع کیا۔ جس کے لئے زلزلے کے مرکز کے قریب واقع جی پی ایس اسٹیشنوں سے مدد لی گئی۔
بلیٹری بتاتے ہیں کہ یہ جی پی ایس اسٹیشن ہر پانچ منٹ بعد ملی میٹر کی درستگی کے ساتھ ارضیاتی حرکات نوٹ کرتے ہیں۔ اس ڈیٹا کا جائزہ لے کر انہیں معلومات ملیں کہ زلزلے سے تقریبا 48 گھنٹے قبل ارضیاتی حرکت میں شدت آ جاتی ہے۔ متعدد جگہ زلزلے کے بڑے جھٹکے سے 48 گھنٹے قبل 3000 ارضیاتی حرکات بھی نوٹ کی گئیں۔
بلیٹری اور نوکیٹ نے ایک ٹائم سیریز مرتب کی، جس کے مطابق پہلے 46 گھنٹے میں ارضیاتی سرگرمی میں اضافہ ہوا۔ لیکن زلزلے سے دو گھنٹے قبل یہ اضافہ غیر معمولی تھا۔ بلیٹری بتاتے ہیں کہ ایسا لگتا تھا کہ جیسے بڑے جھٹکے سے پہلے فالٹس لائن مرکزی مقام پر پھسل رہی ہوں۔
اس کی مزید تصدیق کے لئے دونوں محققین نے عام دنوں میں ہونے والی زمینی حرکات کی ایسی ایک لاکھ ٹائم ونڈوز کا جائزہ لیا، جس سے معلوم ہوا کہ اس وقفے میں غیر معمولی حرکیات کا تناسب اعشاریہ صفر تین فیصد تک تھا۔ جس سے انھوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ اگر انتہائی حساس جی پی ایس سینسرز دستیاب ہوں، جو ملی میٹر کی حد تک ارضیاتی حرکت کا درست کھوج لگا سکیں تو آخری دو گھنٹے میں زلزلے کی قبل از وقت پیش گوئی ممکن ہوگی۔
کیا یہ تکنیک قابل عمل ہے؟
اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے جیو فزسٹ پال سیگل کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی دلچسپ اورچونکا دینے والی تحقیق ہے مگر ابھی اسے جانچ پڑتال کے سخت مراحل سے گزرنا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ اکثر بڑے زلزلے سے پہلے کچھ چھوٹے جھٹکے بھی آتے ہیں لیکن ہرمرتبہ ایسا نہیں ہوتا۔ لہذا جو ڈیٹا جی پی ایس سے جمع کیا گیا اسے ابھی مزید جانچنے کی ضرورت ہے۔
قدیر قریشی سائنسی علوم کے ایک معروف محقق ہیں، انہیں سائنسی علوم کا انسائیکلو پیڈیا بھی کہا جاتا ہے۔ وہ سوشل میڈیا پرپاکستان کے سب سے بڑے سائنس فورم "سائنس کی دنیا" کے بانیوں میں سے ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سائنسدان جی پی ایس سے حاصل شدہ بڑے ڈیٹا کو مصنوعی ذہانت کی مدد سے پروسس کر کے ایک ایسا طریقۂ کار و ضع کرسکتے ہیں جن سے زلزلے کی قبل از وقت اور قابل ِ بھروسہ پیش گوئی ہوگی۔
قدیر قریشی کا کہنا تھا کہ اگرچہ ابھی تک اتنا زیادہ ڈیٹا موجود نہیں، جس کی روشنی میں زلزلے کی درست پیش گوئی ممکن ہو۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ فرانسیسی سائنسدان اپنی تحقیق آگے بڑھانے کے لیے کافی پرجوش ہیں اور مستقبل قریب میں انتہائی حساس اور مؤثر جی پی ایس سینسرز تیار کر لیں گے۔ ان سیسنرز کو مرکزی فالٹ زونز میں نصب کر کے مزید تحقیق کی جائے گی، جس سے زلزلے کی قبل از وقت درست پیشن گوئی ممکن ہوگی۔
وہ مزید کہتے ہیں، ''یہ غالباﹰ زلزلوں کی پیش گوئی کی طرف ایک امید کی کرن ہے۔ لیکن ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ زلزلے زمین کے اندر کئی میل گہرائی میں پتھروں کی تشکیل میں تباہ کن ناکامی کے باعث آتے ہیں۔‘‘ لہذا اس سائنسی محقق کے بقول اس امر کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ہر زلزلے سے پہلے ایسی قابل شناخت حرکات نوٹ کی جا سکیں۔