ماحولیات سے متعلق ایک عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ بھارت، جی 20 ممالک میں واحد ملک ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اقدامات اور عہدوپیمان کو پورا کرنے کے اپنے اہداف سے سب سے قریب تر ہے۔
اشتہار
ماحولیات سے متعلق عالمی ادارے کلائمٹ ٹرانسپیرنسی یا ماحولیاتی شفافیت نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں گوکہ ماحولیاتی اہداف کو پورا کرنے کے حوالے سے بھارتی اقدامات کی تعریف کی ہے تاہم یہ بھی کہا ہے کہ وہ پیرس معاہدے کے تحت گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے طویل المدتی ہدف سے اب بھی پیچھے ہے۔
کلائمٹ ٹرانسپیرنسی 14تحقیقی اور غیر سرکاری تنظیموں کا ایک مشترکہ بین الاقوامی ادارہ ہے۔ جو جی 20ملکوں کی جانب سے ماحولیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے کیے جانے والے اقدما ت کا جائزہ لیتا ہے۔
کلائمٹ ٹرانسپیرنسی نے بدھ کے روز شائع کردہ اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت نے 2015 کے پیرس معاہدہ کے تحت مقرر کردہ ماحولیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس نے گلوبل وارمنگ یا زمینی درجہ حرارت کو اس صدی کے اوآخر تک 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے سلسلے میں جو اقدامات کیے ہیں وہ اسے اہداف کے حوالے سے 'سازگار‘ بناتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی شرح میں 2030 تک 33 تا 35 فیصد کمی کرنے کا وعدہ کیا ہے اوراس سلسلے میں اس نے توانائی، کچرے، صنعت، ٹرانسپورٹ اور جنگلات کے شعبوں میں اقدامات کیے ہیں۔
بھارت کی مقامی آبادی کچھوؤں کی افزائش میں پیش پیش
04:30
رپورٹ میں تاہم کہا گیا ہے کہ بھارت اب بھی پیرس معاہدے کے تحت، ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور زمینی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے، طویل مدتی ہدف تک پہنچنے کے معاملے میں بہت پیچھے ہے۔
رپورٹ میں البتہ کہا گیا ہے کہ اگر بھارت کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے نئے پلانٹ نہیں تعمیر کرتا ہے اور کوئلے کے استعمال کو 2040 تک مرحلہ وار ختم کردیتا ہے تو وہ 'عالمی رہنما‘ بن سکتا ہے۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب بھارتی دارالحکومت حالیہ برسوں میں بدترین فضائی آلودگی سے دوچار ہے۔
رپورٹ کے مطابق گلوبل وارمنگ کو 1.5 تا 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے سلسلے میں دیگر ممالک اور یورپی یونین نے اپنے اہداف کے حصول کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں اور یہ پیرس معاہدے کے تحت طے کردہ اہداف سے بہت کم ہیں۔ ان حالات میں 2100 تک گلوبل وارمنگ میں 2.7 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ کے اضافے کا خدشہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق جاپان کو چھوڑ کر کسی بھی ملک نے اب تک نئے اہداف پیش نہیں کیے ہیں لیکن جاپان نے بھی اپنے بنیادی ہدف میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔
کورونا وائرس اور ممکنہ سات ماحولیاتی تبدیلیاں
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد لاک ڈاؤن کی صورت حال نے انسانی معاشرت پر اہم اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ وبا زمین کے ماحول پر بھی انمٹ نقوش ثبت کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/I. Aditya
ہوا کی کوالٹی بہتر ہو گئی
دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلنے سے صنعتی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں۔ کارخانوں کی چمنیوں سے ماحول کو آلودہ کرنے والے دھوئیں کے اخراج میں وقفہ پیدا ہو چکا ہے۔ نائٹروجن آکسائیڈ کا اخراج بھی کم ہو چکا ہے۔ اس باعث ہوا کی کوالٹی بہت بہتر ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/I. Aditya
کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم
کووِڈ انیس کی وبا نے اقتصادی معمولات میں بندش پیدا کر رکھی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں بھی شدید کمی واقع ہو چکی ہے۔ صرف چین میں اس گیس کے اخراج میں پچیس فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی عارضی ہے۔
وائرس کی وبا نے انسانوں کو گھروں میں محدود کر رکھا ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں شہروں کے قریب رہنے والی جنگلی حیات کے مزے ہو گئے ہیں۔ سڑکوں کے کنارے اور پارکس میں مختلف قسم کے پرندے اور زمین کے اندر رہنے جانور اطمینان کے ساتھ پھرتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/R. Bernhardt
جنگلی حیات کی تجارت کا معاملہ
ماحول پسندوں نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ کووِڈ انیس کی وبا کے پھیلنے سے جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کو روکنے کے لیے اقوام سنجیدگی دکھائیں گے۔ قوی امکان ہے کہ کورونا وائرس کی وبا چینی شہر ووہان سے کسے جنگلی جانور کی فروخت سے پھیلی تھی۔ ایسی تجارت کرنے والوں کے خلاف اجتماعی کریک ڈاؤن بہت مثبت ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lalit
آبی گزر گاہیں بھی شفاف ہو گئیں
اٹلی میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد کیے گئے لاک ڈاؤن کے چند روز بعد ہی وینس کی آبی گزرگاہیں صاف دکھائی دینے لگی ہیں۔ ان شہری نہروں میں صاف نیلے پانی کو دیکھنا مقامی لوگوں کا خواب بن گیا تھا جو اس وبا نے پورا کر دیا۔ اسی طرح پہاڑی ندیاں بھی صاف پانی کی گزرگاہیں بن چکی ہیں۔
تصویر: Reuterts/M. Silvestri
پلاسٹک کے استعمال میں اضافہ
کورونا وائرس کی وبا کا ماحول پر جو شدید منفی اثر مرتب ہوا ہے وہ ڈسپوزایبل پلاسٹک یعنی صرف ایک بار استعمال کی جانے والی پلاسٹک کی اشیاء کے استعمال میں اضافہ ہے۔ کلینیکس اور ہسپتالوں میں استعمال ہونے والے پلاسٹک کے ڈسپوزایبل دستانے اب شاپنگ مارکیٹوں میں بھی استعمال ہونے لگے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P.Pleul
ماحولیاتی بحران نظرانداز
کووِڈ انیس کی وبا کے تیزی سے پھیلنے پر حکومتوں نے ہنگامی حالات کے پیش نظر ماحولیاتی آلودگی کے بحران کو پسِ پُشت ڈال دیا تھا۔ ماحول پسندوں نے واضح کیا ہے کہ وائرس کی وجہ سے ماحولیاتی مسائل کو نظرانداز کرنا مناسب نہیں اور اہم فیصلوں کے نفاذ میں تاخیر بھی زمین کے مکینوں کے لیے نقصان دہ ہو گی۔ یہ امر اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی کلائمیٹ کانفرنس پہلے ہی اگلے برس تک ملتوی ہو چکی ہے۔
تصویر: DW/C. Bleiker
7 تصاویر1 | 7
رپورٹ میں گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں عالمی سطح پر کمی کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ کووڈ انیس کی وجہ سے لاک ڈاون کے سبب گوکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی سطح میں کمی ضرور آئی ہے تاہم رپورٹ کے مطابق بعض ممالک دوبارہ 2019 کی سطح پر لوٹ آئے ہیں۔
اشتہار
یورپی یونین'ناکافی‘ کے زمرے میں
رپورٹ کے مطابق یورپی یونین میں فی کس گرین ہاوس گیس(سی ایچ جی) کے اخراج میں گزشتہ دہائی میں کمی آئی لیکن 2030تک گیس کے اخراج کو40 فیصد کمی کی سطح پر لانے کے حوالے سے پیرس معاہدے کے اہداف کو پورا کرنے کے لحاظ سے یورپی یونین کے اقدامات 'ناکافی‘ ہیں۔
رپورٹ میں پولینڈ، چیک جمہوریہ، بلغاریہ اور رومانیہ سمیت ان دیگرملکوں سے کوئلے کے استعمال میں کمی کرنے کی اپیل کی گئی ہے جنہوں نے کوئلے کا استعمال مرحلہ وار انداز سے ختم کرنے کا کوئی منصوبہ اب تک تیار نہیں کیا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے دس حیرت انگیز اثرات
’گلوبل وارمنگ‘ دنیا بھر میں موسموں پر کیسے اثر انداز ہو رہی ہے، زیادہ تر باتوں سے تو ہم واقف ہیں۔ لیکن موسمیاتی تبدیلی کے کچھ اثرات ایسے بھی ہیں جو ہمارے طرز زندگی کو حیرت انگیز طور پر تبدیل کر دیں گے۔
ہوائی سفر میں بڑھتے ہچکولے
ایک تازہ تحقیق کے مطابق مستقبل قریب میں ہوائی جہاز میں سفر کرنا پہلے سے زیادہ پریشان کن ہو جائے گا۔ تحقیق کے مطابق دوران پرواز ہوائی جہازوں کو ماضی کے مقابلے میں ڈیڑھ سو فیصد زیادہ ’ایئر ٹربولینس‘ کا سامنا کرنا پڑے گا یعنی شدید ہچکولے لگا کریں گے۔
تصویر: Colourbox/M. Gann
بحری جہاز اور برفیلی چٹانیں
ہوائی جہازوں کے علاوہ بحری جہازوں کو بھی نقل و حرکت میں مشکلات پیش آئیں گی۔ سن 1912 میں ٹائیٹینک جہاز برفیلی چٹان سے ٹکرانے کے بعد ڈوبا تھا لیکن اس کے بعد ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مستقبل قریب میں ایسے حادثے دوبارہ پیش آ سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Raedle
آسمانی بجلی گرنے کی تعداد میں اضافہ
عالمی حدت میں اضافے کے باعث طوفان باد و باراں اور آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہو گا۔ آسمانی بجلی گرنے سے جنگلات میں آگ لگنے کے علاوہ بھی کئی نقصانات ہیں۔ لیکن ماہرین کے مطابق اس کے باعث پیدا ہونے والی نائٹروجن آکسائیڈ گیس دنیا کو دوسری زیریلی گیسوں سے محفوظ بھی رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
لاوا اگلتے آتش فشاں
دنیا میں بے تحاشا عجائبات ہیں مثلاﹰ آئس لینڈ میں ہزاروں برسوں سے آتش فشاں اور گلیشیئر بیک وقت ایک ہی جگہ موجود ہیں۔ عالمی حدت کے باعث گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ زمین پر ہوا کا دباؤ بھی کم ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں آتش فشانوں میں لاوا بڑھتا جا رہا ہے۔ اگلے برسوں کے دوران دنیا بھر میں آتش فشاں زیادہ لاوا اگلیں گے جس سے ہوائی جہازوں کی پروازیں متاثر ہونے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/S. Crespo
ہم ناراض تر ہوتے جائیں گے
موسمیاتی تبدیلی ہمارے مزاجوں پر بھی بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ محققین کے مطابق عالمی حدت میں اضافے کے باعث انسان زیادہ غصیلے ہو جائیں گے اور تشدد میں بھی اضافہ ہو گا۔ سماجی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتا ہوا غصہ عالمی سطح پر مسلح تنازعات کی شکل اختیار کر جائے گا۔
تصویر: Fotolia/Nicole Effinger
سمندر بھی تاریک تر
سائنسدانوں کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سمندر کی گہرائیوں میں بھی نمایاں ہوں گے۔ بدلتا موسم دنیا بھر میں زیادہ بارشیں لائے گا، دریاؤں میں تغیانی بھی بڑھے گی اور سیلاب کے باعث زمینی کٹاؤ بھی بڑھے گا۔ کیچڑ زدہ دریا اس پانی کو سمندر تک پہنچائیں گے جس کے باعث سمندر تاریک ہو جائیں گے۔ محققین کے مطابق یہ عوامل اب نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔
تصویر: imago/OceanPhoto
الرجی بھی بڑھے گی
بڑھتے غصے سے آپ اگر پریشان نہیں ہیں تو طرح طرح کی الرجی آپ کو ضرور پریشان کرے گی اور اگر بہار کے موسم میں آپ کو الرجی کا مرض لاحق ہوتا ہے تو ابھی سے تیار ہو جائیے۔ آئندہ الرجی کا کوئی ایک موسم نہیں ہو گا۔
تصویر: Colourbox
چھوٹے ہوتے جانور
عالمی حدت میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا، جانوروں کے قد بھی چھوٹے ہوتے جائیں گے لیکن ظاہر ہے ایسا فوری طور پر تو نہیں ہو گا، بلکہ یہ ایک بتدریج عمل ہے۔ پچاس ملین برس پہلے جانوروں کا سائز موجودہ وقت کی نسبت کہیں بڑا تھا۔ لیکن عالمی حدت میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کی قد وقامت کم ہونے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
تصویر: Fotolia/khmel
صحراؤں میں کھلتے پھول
صحراؤں میں پھول کھلیں گے، اور یہ کوئی شاعرانہ بات نہیں ہے، موسمیاتی تبدیلیاں دنیا بھر کے صحراؤں پر بھی یوں اثر انداز ہوں گی کہ آئندہ صحرا بھی بنجر اور ویران نہیں رہیں گے بلکہ وہاں گھاس بھی اگے گی اور پھول بھی کھلیں گے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press/B. Wick
چیونٹیوں کی بدلتی عادات
آپ شاید یقین نہ کریں لیکن کرہ ارض کے ایکو سسٹم میں چیونٹیاں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مگر موسمیاتی تبدیلی اور عالمی حدت اس ننھی مخلوق کے مزاج پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ ایک تحقیقی مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حدت میں معمولی اضافہ بھی چیونٹیوں کی عادات بدل دیتا ہے اور وہ موافق درجہ حرارت ملنے تک زیر زمین ہی رہتی ہیں۔
تصویر: CC BY-SA 4.0/Hans Hillewaert
10 تصاویر1 | 10
سی ایچ جی کے اخراج کے معاملے میں چین اور امریکا سر فہرست
چین، گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کے معاملے میں جی 20 کے اوسط اخراج کے لحاظ سے اب بھی سرفہرست ہے اور 2030 تک اس کے بلندی پر پہنچ جانے کا خدشہ ہے۔ رپورٹ میں چین سے ملکی اور بیرون ملک کوئلہ پائپ لائن پروجیکٹوں کو واپس لینے کی اپیل کی گئی ہے تاکہ گیسوں کے اخراج کو محدود رکھا جاسکے۔
امریکا،جو اس ماہ کے اوائل میں پیرس معاہدے سے باضابطہ الگ ہوچکا ہے،جی 20ملکوں کے اوسط سے دو گنا سے زیادہ گرین ہاوس گیس خارج کرتا ہے۔ امریکا میں ٹرانسپورٹ سے ہونے والی سی ایچ جی، جی 20 کے اوسط اخراج سے چار گنا سے بھی زیادہ ہے۔