1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صرف بھارت گلوبل وارمنگ اہداف سے سب سے قریب تر

جاوید اختر، نئی دہلی
19 نومبر 2020

ماحولیات سے متعلق ایک عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ بھارت، جی 20 ممالک میں واحد ملک ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اقدامات اور عہدوپیمان کو پورا کرنے کے اپنے اہداف سے سب سے قریب تر ہے۔

Asiens größtes Solarkraftwerk
تصویر: Ashley Cooper/Global Warming Images/picture alliance

ماحولیات سے متعلق عالمی ادارے کلائمٹ ٹرانسپیرنسی یا ماحولیاتی شفافیت نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں گوکہ ماحولیاتی اہداف کو پورا کرنے کے حوالے سے بھارتی اقدامات کی تعریف کی ہے تاہم یہ بھی کہا ہے کہ وہ پیرس معاہدے کے تحت گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے طویل المدتی ہدف سے اب بھی پیچھے ہے۔

کلائمٹ ٹرانسپیرنسی  14تحقیقی اور غیر سرکاری تنظیموں کا ایک مشترکہ بین الاقوامی ادارہ ہے۔ جو جی 20ملکوں کی جانب سے ماحولیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے کیے جانے والے اقدما ت کا جائزہ لیتا ہے۔

کلائمٹ ٹرانسپیرنسی نے بدھ کے روز شائع کردہ اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت نے 2015 کے پیرس معاہدہ کے تحت مقرر کردہ ماحولیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس نے گلوبل وارمنگ یا زمینی درجہ حرارت کو اس صدی کے اوآخر تک 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے سلسلے میں جو اقدامات کیے ہیں وہ اسے اہداف کے حوالے سے 'سازگار‘ بناتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی شرح میں 2030 تک 33 تا 35 فیصد کمی کرنے کا وعدہ کیا ہے اوراس سلسلے میں اس نے توانائی، کچرے، صنعت، ٹرانسپورٹ اور جنگلات کے شعبوں میں اقدامات کیے ہیں۔

بھارت کی مقامی آبادی کچھوؤں کی افزائش میں پیش پیش

04:30

This browser does not support the video element.

رپورٹ میں تاہم کہا گیا ہے کہ بھارت اب بھی پیرس معاہدے کے تحت، ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور  زمینی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے، طویل مدتی ہدف تک پہنچنے کے معاملے میں بہت پیچھے ہے۔

رپورٹ میں البتہ کہا گیا ہے کہ اگر بھارت کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے نئے پلانٹ نہیں تعمیر کرتا ہے اور کوئلے کے استعمال کو 2040 تک مرحلہ وار ختم کردیتا ہے تو وہ 'عالمی رہنما‘ بن سکتا ہے۔

یہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب بھارتی دارالحکومت حالیہ برسوں میں بدترین فضائی آلودگی سے دوچار ہے۔

رپورٹ کے مطابق گلوبل وارمنگ کو 1.5 تا 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے سلسلے میں دیگر ممالک اور یورپی یونین نے اپنے اہداف کے حصول کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں اور یہ پیرس معاہدے کے تحت طے کردہ اہداف سے بہت کم ہیں۔ ان حالات میں 2100 تک گلوبل وارمنگ میں 2.7 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ کے اضافے  کا خدشہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق جاپان کو چھوڑ کر کسی بھی ملک نے اب تک نئے اہداف پیش نہیں کیے ہیں لیکن جاپان نے بھی اپنے بنیادی ہدف میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔

رپورٹ میں گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں عالمی سطح پر کمی کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ کووڈ انیس کی وجہ سے لاک ڈاون کے سبب گوکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی سطح میں کمی ضرور آئی ہے تاہم رپورٹ کے مطابق بعض ممالک دوبارہ 2019 کی سطح پر لوٹ آئے ہیں۔

یورپی یونین'ناکافی‘ کے زمرے میں

رپورٹ کے مطابق یورپی یونین میں فی کس گرین ہاوس گیس(سی ایچ جی) کے اخراج میں گزشتہ دہائی میں کمی آئی لیکن 2030تک گیس کے اخراج کو40 فیصد کمی  کی سطح پر لانے کے حوالے سے پیرس معاہدے کے اہداف کو پورا کرنے کے لحاظ سے یورپی یونین کے اقدامات 'ناکافی‘ ہیں۔

رپورٹ میں پولینڈ، چیک جمہوریہ، بلغاریہ اور رومانیہ سمیت ان دیگرملکوں سے کوئلے کے استعمال میں کمی کرنے کی اپیل کی گئی ہے جنہوں نے کوئلے کا استعمال مرحلہ وار انداز سے ختم کرنے کا کوئی منصوبہ اب تک تیار نہیں کیا ہے۔

سی ایچ جی کے اخراج کے معاملے میں چین اور امریکا سر فہرست

چین، گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کے معاملے میں جی 20 کے اوسط اخراج کے لحاظ سے اب بھی سرفہرست ہے اور 2030 تک اس کے بلندی پر پہنچ جانے کا خدشہ ہے۔ رپورٹ میں چین سے ملکی اور بیرون ملک کوئلہ پائپ لائن پروجیکٹوں کو واپس لینے کی اپیل کی گئی ہے تاکہ گیسوں کے اخراج کو محدود رکھا جاسکے۔

امریکا،جو اس ماہ کے اوائل میں پیرس معاہدے سے باضابطہ الگ ہوچکا ہے،جی 20ملکوں کے اوسط سے دو گنا سے زیادہ گرین ہاوس گیس خارج کرتا ہے۔ امریکا میں ٹرانسپورٹ سے ہونے والی سی ایچ جی، جی 20 کے اوسط اخراج سے چار گنا سے بھی زیادہ ہے۔

جاوید اختر(انکیتا مکھوپادھیائے)

ماحول دوست سڑکیں شہروں کا مستقبل

04:08

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں