1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

 جے پور فلم فیسٹیول میں تین پاکستانی فلمیں شامل

کوکب جہاں
10 جنوری 2021

بھارت کے جے پور فیسٹیول میں اس مرتبہ ایک دستاویزی جبکہ دو مختصر دورانیے کی پاکستانی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہیں۔ یہ میلہ 15سے 19جنوری تک سجے گا۔

Pakistan Filmfestival Some Lovers To Some Beloved
تصویر: Umar Riaz

جے پور فلم فیسٹیول دنیا کے چند اہم فلم فیسٹیول میں شمار کیا جاتا ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد سے جاری کشیدہ حالات میں ایک دستاویزی فلم جبکہ دو مختصر دورانیے کی پاکستانی فلموں کا اس میلے کے لیے منتخب ہونا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

اس فیسٹیول کا حصہ بننے والی واحد پاکستانی دستاویزی فلمSome Lover to Some Beloved ہے، جس میں پاکستانی شاعر فیض احمد کی شاعری کو پاکستان کے نامور نقاد اور فنون لطیفہ کے استاد ضیاء محی الدین کی نظر سے پیش کیا گیا ہے۔

عمر کو اس خیال کو ایک دستاویزی فلم کی شکل دینے میں تقریباﹰ سات سال کا عرصہ لگاتصویر: Umar Riaz

فلم کے ہدایت کار عمر ریاض نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس فلم کا خیال انہیں تقریباﹰ دس سال قبل فیض احمد فیض کے صد سالہ جشن پیدائش کے دوران پاکستان کے ایک اور لیجنڈ ضیاء محی الدین کو کلام فیض پڑھتے اور ان کی شاعری پر مکالمہ کرتے ہوئے آیا۔ اس وقت عمر امریکا میں اپنی تعلیم مکمل کر رہے تھے اور کسی کام کے سلسلے میں لاہور آئے ہوئے تھے۔

عمر کے بقول انہیں اس خیال کو ایک دستاویزی فلم کی شکل دینے میں تقریباﹰ سات سال کا عرصہ لگا،''یہ فلم دراصل اردو شاعری کی صنف غزل میں بیان کیے گئے انسانی جذبات اور احساسات کی عکاس ہے، جس میں ایک عاشق اپنے محبوب کو حاصل کرنے کی تمنا تو کرتا ہے مگر اس کو حاصل کر نہیں پاتا۔ اس ہی مناسبت سے اس فلم کا نام'کوئی عاشق کسی محبوب سے‘ رکھا گیا ہے۔

عمر کے مطابق اس فلم کا مقصد پاکستان میں اردو ادب سے وابستہ دو عظیم شخصیات فیض احمد فیض کو بطور شاعر اور ضیاء محی الدین کو بہ حیثیت نقاد خراج تحسین پیش کرنا بھی ہے اور اکیسویں صدی کے نوجوانوں کو اردو شاعری کی اہمیت سے روشناس کرانا بھی۔

پاکستان اور بھارت کے ناخوشگوار سفارتی تعلقات کے باوجود اپنی فلم کو جے پور فلم فیسٹیول میں بھیجنے کے بارے عمر کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں اس وقت اس کام کی زیادہ ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو پتا چلے کی آپ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں شاعری کے ذریعے بیان کیے گئے انسانی جذبات اور احساسات ایک ہی جیسے ہوتے ہیں اور خاص طور پر پاکستان اور بھارت میں، جہاں ہم تقریباﹰ ایک ہی طرح کے روایتی نظام میں بندھے ہوئے ہیں۔

سندھی زبان کی یہ فلم راہول نے گوئٹے انسٹیٹیوٹ پاکستان کے مالی تعاون سے تیار کی تھیتصویر: Rahul Aijaz

انہوں نے مزید کہا کہ اردو شاعری بھارت میں بھی اسی طرح پڑھی اور پسند کی جاتی ہے اور یہ نہ صرف اس خطے کی ایک تاریخ بیان کرتی ہے بلکہ پاکستان کے وجود کی 73 سالہ دور کی بھی کہانی ہے۔

اس دستاویزی فلم کے علاوہ دو مختصر دورانیے کی فلمیں A Train Crosses The Dessert اور Baadi بھی فیسٹیول میں شامل ہیں۔

فلم 'اے ٹرین کراسس دی ڈیزرٹ‘ کے رائٹر اور ڈائریکٹر راہول اعجاز نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہانی انہوں نے تب لکھی تھی جب دو سال قبل ان کے بائیس سالہ کزن  کینسر(سرطان) جیسے موذی مرض کا مقابلہ کرتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

اے ٹرین کراسس دی ڈیزرٹ دو بھائیوں کی کہانی ہے، جس میں ایک بھائی فاروق (طارق راجہ) کا کینسر آخری مراحل میں ہے اور جبکہ اس کا بھائی راحیل (نادر حسین) بے بسی سے موت و زیست کی اذیت کے شکار اپنے رشتے کو اپنی آنکھوں کے سامنے کھوتا اور تڑپتا ہوا دیکھ رہا ہے۔ موت کے دہانے پر کھڑا فاروق اپنے بھائی راحیل سے درخواست کرتا ہے کہ وہ موت کو گلے لگانے میں اس کی مدد کرے۔

راہول کا کہنا تھا کہ وہ آج تک اپنے کزن کی تکلیف اور جدائی کو نہیں بھلا سکے اور اسی لیے یہ کہانی ان کے دل کے بہت قریب ہے اور فلم میں مریض کے بھائی کا کردار شاید وہ خود ہی ہیں۔

سندھی زبان میں تقریباﹰ بیس منٹ دورانیے کی یہ فلم راہول نے 2020ء میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ پاکستان کے مالی تعاون سے تیار کی تھی۔ راہول اس فلم کے شریک پروڈیوسر بھی ہیں۔

ماریہ اپنی فلم کے جے پور فلم فیسٹیول میں شامل کیے جانے پر بہت خوشی محسوس کر رہی ہیں۔تصویر: Umar Riaz

فلم کے لیے اداکاروں کا انتخاب کراچی کی نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس سے کیا گیا۔ ان اداکاروں سے راہول بھی پہلی مرتبہ آڈیشن کے دوران ہی ملے تھے۔

فلم کو سندھی زبان میں بنانے کی وجہ بتاتے ہوئے راہول نے کہا کہ کیونکہ وہ خود بھی سندھی ہیں اورگھر میں سندھی  بولی جاتی ہےاس لیے انہیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ پاکستان میں سندھی فلمیں بننا تقریباﹰ بند ہوگئی ہیں، ''سندھی زبان میں فلم بنانے کا مقصد اس زبان کے سنیما کو پھر سے زندہ کرنا اور اسے عالمی سطح پر متعارف کروانا تھا۔‘‘

راہول کا مزید کہنا تھا کہ جے پور چونکہ بھارت کے صوبے راجھستان میں ہے، جہاں کی روایتی اقدار اور ثقافت سندھ سے بہت قریب ہے، وہاں پرسندھی زبان کی فلم کو زیادہ سمجھا اور سراہا جائے گا۔

فلم کے عنوان کے بارے میں راہول کا کہنا تھا کہ یہ عنوان دراصل مصر سے تعلق رکھنے والے عربی زبان کے شاعر اشرف ابوالیزید کی نظم سے ماخوذ ہے، جسے ان کے والد نصیر اعجاز نے پہلے انگریزی اور پھر سندھی میں ترجمہ کیا۔ عنوان انگریزی میں رکھنے کی وجہ فلم کو بین الاقوامی سطح پر نمائش کے لیے پیش کرنا بھی تھا۔ فلم کے مکالموں اور پوسٹر میں سندھی ترجمہ بھی شامل کیا گیا ہے۔

اے ٹرین کراسس دی ڈیزرٹ اس سے قبل پانچ بین الاقوامی فیسٹیولز میں پیش کی جا چکی ہے جبکہ فلم کی باقاعدہ ریلیز کے لیے راہول کسی پاکستانی یا بین الاقوامی سطح کے پلیٹ فارم کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔

راہول فلم بنانے سے قبل صحافت کے پیشے سے بھی منسلک رہے ہیں اور ان کے فلمی تجزیے پاکستان کے مشہور روزناموں میں شائع ہوتے ہوتے رہے ہیں۔ راہول محض 22 سال کی عمر میں جنوبی کوریا کے 'ایشیا انسٹیٹیوٹ آف جرنلسٹ‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر بھی رہے ہیں۔

ان حالات میں جب پاکستان اور بھارت کے سفارتی تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں، جے پور فلم فیسٹیول میں فلم بھیجنے کے بارے میں راہول کا کہنا تھا کہ وہ دونوں ملکوں کے سیاسی حالات اور تعلقات سے بالا تر ہوکر سوچتے ہیں اور سمجھتے ہیں آرٹ اور تخلیق کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور تخلیقی لوگوں کو ان معاملات سے الگ رہنا چاہیے۔

دستاویزی فلم 'باڈی‘ کی ہدایت کار ماریہ جاوید کے مطابق ان کی مختصر فلم موجودہ زمانے کی ایک نوجوان خاتون کے فطری احساس اور جذبات اور اس کے ارد گرد موجود دنیا کے تضاد سے پیدا ہونے والے خوف اور اضطراب کی کہانی ہے۔ ماریہ نے کہا کہ وہ اپنی فلم کے جے پور فلم فیسٹیول میں شامل کیے جانے پر بہت خوشی محسوس کر رہی ہیں۔

جے پور فلم فیسٹیول گزشتہ 13 سالوں سے منعقد کیا جا رہا ہے مگر اس مرتبہ کورونا کی عالمی وباء کے سبب اس فیسٹیول کا انعقاد آن لائن کیا جائے گا۔ فیسٹیول میں اس سال تقریبا 100 ممالک کی 240 فلموں کی نمائش کی جائے گی۔

پاکستانی فلم کے لیے راجستھان فلم فیسٹیول میں خصوصی پرائز

03:19

This browser does not support the video element.

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں