1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جے یو آئی کی حکومت سے علیحدگی، سیاسی جوڑ توڑ شروع

15 دسمبر 2010

پاکستان میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی حکومتی اتحاد سے علیحدگی کے بعد مختلف جماعتوں کے درمیان سیاسی جوڑ توڑعروج پر پہنچ گیا ہے۔

مولانا فضل الرحمانتصویر: Abdul Sabooh

مولانا فضل الرحمان نے حکومت سے علیحدگی کے ایک دن بعد ہی ناموس رسالت کمیٹی کے زیراہتمام چوبیس اوراکتیس دسمبر کو حکومت کے خلاف مظاہروں اور ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ بدھ کے روز اسلام آباد میں ناموس رسالت کمیٹی کے زیراہتمام آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا، ’ناموس رسالت کے تحفظ کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ حکمران اپنی پوزیشن واضح کریں ورنہ ذلت آمیز انجام کے لیے تیار ہو جائیں۔‘

اس کے بعد وزیرمحنت خورشید شاہ پیپلز پارٹی کے وفد کے ہمراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو منانے اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔ تاہم ایس معلوم ہوتا ہے کہ اپنے سیاسی داؤ پیچ کے لئے مشہورمولانا فضل الرحمان اس باراتنی جلدی راضی ہونے کے لئے آمادہ نہیں۔

دوسری جانب مختلف جماعتوں کے اجلاسوں اور رہنماوں کی باہمی مشاورت کا سلسلہ بھی تیز ہو گیا ہے۔ جمعیت علمائےاسلام کی حکمران اتحاد سےعلٰیحدگی کے بعد وزیر قانون بابر اعوان نے فوری طور پرمسلم لیگ ق کے رہنماوں سے ملاقات کی ہے۔ اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بابر اعوان نے کہا، ’وہ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر ہیں اور قومی اسمبلی میں بھی غالباًان کی اکاون سیٹیں ہیں۔ اس لئے جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعلق رکھے بغیر جمہوریت مستحکم ہو سکتی ہے نہ ہی یہ نظام جاری رہ سکتا ہے۔ اور رابطے بڑھنے سے بہتری آئے گی۔‘

پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانیتصویر: Abdul Sabooh

مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے بھی بدھ کے روز ناموس رسالت کمیٹی کے زیراہتمام کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی۔ تاہم سیاسی تجزیہ نگار بدھ کے دن ایم کیو ایم لندن اور کراچی میں بیک وقت ہونے والے اجلاس کو حکومت کے رہنے یا جانے سے متعلق اہم قرار دے رہے ہیں۔

اجلاس سے قبل ایم کیو ایم کے رہنما رضا ہارون نے پیپلز پارٹی کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ طرزعمل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا،'حکومتی رویہ اور حکومت کے ایک صوبائی وزیرداخلہ جو کہ قابل احترام عہدہ ہوتا ہےان کا رویہ، ان کے اشتعال انگیزبیانات اورجارحانہ الزامات یہ سب چیزیں باعث تشویش ہوتی ہیں اور بہت سارے سوالات و شکوک و شبہات ہمارے ذہن میں ہیں، جن کے بارے میں ہم حکومت سے واضح جواب چاہتے ہیں کہ ان تمام چیزوں کا بالآخر مقصد کیا ہے۔‘

خیال رہے کہ آر جی ایس ٹی پر ایم کیو ایم اور حکومت کے درمیان پہلے ہی واضح اختلافات موجود تھے تاہم سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کی جانب سے ایم کیو ایم کو ٹارگٹ کلنگ میں ملوث اور بھتہ خور جماعت قرار دینے سے اتحادی جماعتوں میں دوریاں بڑھی ہیں۔ ادھر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے مسلم لیگ ہم خیال گروپ کے صدر سلیم سیف اللہ سے رابطہ کیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ایوان میں موجود ان کے اراکین کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے ترجمان احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے اوراگر پیپلز پارٹی نے اتحادیوں کو راضی نہ کیا تو پھرحکومت جا بھی سکتی ہے۔

دوسری جانب آج وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دو وفاقی وزراء کی برطرفی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پرغورکیا گیا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے کابینہ ارکان کو بتایا کہ حامد سعید کاظمی اوراعظم سواتی کو منع کرنے کے باوجود مخالفانہ بیان بازی جاری رکھنے پر برطرف کیا گیا۔ ادھرسپریم کورٹ نے بھی وزراء کی برطرفی کے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم نے ثابت کردیا کہ وہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اسلام آباد کے بتدریج سرد ہوتے موسم میں وزراء کی برطرفی کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی حرارت کیا رنگ لاتی ہے اس کا فیصلہ آئندہ چند روز میں ہو جائے گا۔

رپورٹ: شکور رحیم،اسلام آباد

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں