حادثے کے بعد جاپان میں ایٹمی توانائی پر کشمکش
26 جولائی 2011اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایٹمی توانائی ترک کرنے کے نتیجے میں ملکی صنعت کے کھوکھلا ہونے کا عمل تیز تر ہو جائے گا اور جاپان بین الاقوامی سطح پر اپنی مقابلہ بازی کی صلاحیت سے بھی محروم ہو جائے گا۔
دوسری جانب فوکوشیما کے جوہری پلانٹ کے ہولناک حادثے کے بعد اپنی سلامتی کے لیے فکر مند ووٹروں اور مستقبل کی ٹیکنالوجیز کو ترقی دینے میں مصروف چند صنعتی اداروں کا ایک ایسا اتحاد وجود میں آ رہا ہے، جس کا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ اگر جاپان بین الاقوامی سطح پر پیچھے نہیں رہنا چاہتا تو اُسے ایٹمی توانائی کو خیر باد کہتے ہوئے اپنی ساری توجہ توانائی کے قابل تجدید ذرائع پر مرکوز کرنا ہو گی۔
ٹوکیو میں جے پی مورگن کے شعبہ تحقیق کے ڈائریکٹر جیسپر کول نے کہا:’’جاپان کے پاس ایک سال کی مہلت ہے۔ اس عرصے کے اندر اندر یہ ملک چاہے تو آلودگی سے پاک توانائی، توانائی ذخیرہ کرنے والی بیٹریوں اور شمسی سیلز کے شعبے میں دُنیا بھر میں قائدانہ کردار سنبھال سکتا ہے۔‘‘
فوجٹسو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے وابسہ ماہر معاشیات مارٹن شُلس کہتے ہیں:’’ایک سے لے کر دو سال تک تکلیف تو اٹھانا پڑے گی کیونکہ وہ توانائی میسر نہیں ہو گی، جو اب تک ایٹمی ری ایکٹرز سے آ رہی تھی۔ لیکن یہ تکلیف بھی ماضی میں اختیار کی گئی پالیسیوں کا نتیجہ ہو گی۔ جب آپ ایک بار اپنی توجہ مستقبل کے امکانات پر مرکوز کر دیں گے، تو پھر یہ تکالیف نہیں رہیں گی۔‘‘
کیوڈو نیوز ایجنسی کے اتوار 24 جولائی کو شائع ہونے والے ایک حالیہ سروے کے مطابق 70 فیصد جاپانی رائے دہندگان وزیر اعظم ناؤتو کان کے گزشتہ مہینے کے اس اعلان کے حامی ہیں کہ جاپان کو مستقبل میں ایٹمی توانائی پر سے انحصار مکمل طور پر ختم کر دینا چاہیے۔
وزیر اعظم کان، جو غیر مقبول ہو چکے ہیں اور جن پر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانے کے لیے دباؤ بھی ہے، باقاعدہ ایک قانون کے ذریعے توانائی کے قابل تجدید ذرائع کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ آئندہ ایک دو ہفتے کے اندر اندر پارلیمان سے اس قانون کی منظوری متوقع ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عدنان اسحاق