حادثے کے بعد سمندر میں جلتا ایرانی آئل ٹینکر ڈوب سکتا ہے
مقبول ملک اے ایف پی، روئٹرز
8 جنوری 2018
چینی ساحلی علاقے کے قریب سمندر میں ایک مال بردار بحری جہاز کے ساتھ تصادم کے بعد اب شعلوں کی لپیٹ میں آیا ہوا ایرانی آئل ٹینکر ڈوب سکتا ہے۔ جہاز کا عملہ تاحال لاپتہ ہے۔ اس ٹینکر پر ایک لاکھ چھتیس ہزار ٹن تیل لدا ہوا ہے۔
اشتہار
چینی دارالحکومت بیجنگ سے پیر آٹھ جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق چینی حکام نے بتایا ہے کہ اس ایرانی تیل بردار بحری جہاز کو اس وقت آگ کے شعلوں نے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور یہ کسی بھی وقت دھماکے سے پھٹ سکتا یا آتشزدگی کے نتیجے میں سمندر میں ڈوب سکتا ہے۔
اس آئل ٹینکر کو حادثہ قریب 36 گھنٹے پہلے پیش آیا تھا اور تب سے اب تک اس پر سوار عملے کے بتیس ارکان، جن میں سے 30 ایرانی تھے اور دو بنگلہ دیشی، میں سے 31 کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ بیجنگ میں حکام نے بتایا کہ امدادی کارکنوں کو اس جہاز سے اب تک عملے کے صرف ایک رکن کی لاش ملی ہے۔
اس ٹینکر کو، جو ہلکا خام تیل لے کر جا رہا تھا، اس حد تک آتشزدگی کا سامنا ہے، کہ اس جہاز اور اس کے قریبی سمندری علاقے سے جلتے ہوئے تیل کے دھوئیں کے گہرے بادل فضا میں اٹھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ٹینکر پر اور اس کے ارد گرد درجہ حرارت اتنا زیادہ ہے کہ اس وجہ سے امدادی کارروائیوں میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
چینی وزارت ٹرانسپورٹ کے مطابق آگ لگ جانے کے نتیجے میں اس ٹینکر پر گہرے دھوئیں کے ساتھ ساتھ بہت سے زہریلے اور مضر صحت مادے بھی پائے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے ریسکیو کارکن بڑی تعداد میں اس جہاز تک نہیں پہنچ پا رہے۔
بیجنگ میں ملکی وزرات ٹرانسپورٹ کے مطابق اس آئل ٹینکر پر پاناما کا پرچم لہرا رہا تھا، اور 274 میٹر یا 900 فٹ طویل یہ آئل ٹینکر، جس کا نام سانچی تھا، کسی بھی وقت دھماکے سے پھٹ یا سمندر میں غرق ہو سکتا ہے۔
ایسا ہونے کی صورت میں متاثرہ سمندری علاقے میں شدید ماحولیاتی آلودگی کا خطہ ہے۔ یہ ٹینکر ہفتہ چھ جنوری کی شام شنگھائی سے قریب 160 سمندری میل کے فاصلے پر ایک مال بردار بحری جہاز سے ٹکرا گیا تھا۔
جہازوں کو چلانے والے پروپَیلرز
04:43
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق ’سانچی‘، جس کا انتظام ایرانی کمپنی ’گلوری شپنگ‘ کے پاس تھا، ایک لاکھ 36 ہزار ٹن خام تیل لے کر جنوبی کوریا جا رہا تھا۔
جس کارگو شپ کے ساتھ اس ٹینکر کی ٹکر ہوئی، وہ ہانگ کانگ کا ایک بحری جہاز سی ایف کرسٹل تھا، جس پر 64 ہزار ٹن اناج لدا ہوا تھا۔
ایرانی حکام کے مطابق یہ آئل ٹینکر نیشنل ایرانی ٹینکر کمپنی (NITC) کی ملکیت ہے۔ اے ایف پی کے مطابق یہ حادثہ گزشتہ دو سال سے بھی کم عرصے میں ایران کے اسی ادارے کی ملکیت کسی تیل بردار بحری جہاز کو پیش آنے والا دوسرا بڑا حادثہ ہے۔
اس سے قبل اگست 2016ء میں بھی ایران کا ایک تیل بردار سپر ٹینکر آبنائے سنگاپور کے پانیوں میں ایک کنٹینر شپ سے ٹکرا گیا تھا۔
جنوبی ایشیا میں بحری جہازوں کے قبرستان
بھارت اور بنگلہ دیش میں بحری جہازوں کو توڑنے والے مزدوروں کوسخت حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران نہ تو حفاظتی اقدامات کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی تحفظ ماحول کا۔ یہ لوگ جان جونکھوں میں ڈال کر یہ کام کرتے ہیں۔
تصویر: Tomaso Clavarino
بے یارو مددگار
یہ تصویر بنگلہ دیشی شہر چٹاگونگ کے شپ بریکنگ یارڈ کی ہے۔ اس صنعت میں کام کرنے والے ایک چوتھائی یا پچیس فیصد مزدور اٹھارہ سال سے کم عمر کے نوجوان ہیں۔ یہاں پر نہ تو مزدوروں کو کوئی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور نہ ہی ماحولیات کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت بھی اس معاملے پر کوئی توجہ نہیں دیتی۔
تصویر: Tomaso Clavarino
استحصال
نوجوانوں اور کم عمر بچوں سے اکثر زیادہ کام لیا جاتا ہے اور انہیں دوسروں کے مقابلے میں تنخواہ بھی کم دی جاتی ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
غیر محفوظ
ناکارہ جہازوں کو توڑنے کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزدروں کو ہیلمٹ، خاص قسم کے جوتے یا حفاظتی چشمے فراہم کیے جانے چاہییں تاہم نہ تو بھارت اور نہ ہی بنگلہ دیش میں ایسا کیا جاتا ہے۔ شپ بریکنگ یارڈز میں مزدوروں کا شدید زخمی ہونا معمول کی بات ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
جھلسے ہوئے مزدور
’شیخو‘ چٹاگانگ کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ وہ اس وقت شدید جھلس گیا، جب ايک بحری جہاز کو توڑتے وقت آگ لگ گئی تھی۔
تصویر: Tomaso Clavarino
معذوری
ادریس کبھی شپ بریکنگ صنعت کا ملازم ہوا کرتا تھا۔ ایک حادثے میں اس کی ٹانگ ضائع ہو گئی۔
تصویر: Tomaso Clavarino
زہریلی آلودگی
شپ بریکنگ سے صرف یہاں کے ملازمین ہی متاثر نہیں ہیں بلکہ ارد گرد کے علاقوں کے مکین بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ ناکارہ جہازوں سے بہنے والے تیل نے زیر زمین پانی کے ذخائر کو زہریلا بنا دیا ہے۔ ویلڈنگ کے دوران اڑنے والے دھوئیں نے بھی ماحول کو انتہائی آلودہ بنا دیا ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
کوئی امکان نہیں
جن جن علاقوں میں شپ بریکنگ یارڈز یا بحری جہازوں کے قبرستان موجود ہیں، وہاں کا ماحولیاتی نظام درم برھم ہو چکا ہے۔ اب وہاں نہ کھیتی باڑی کی جا سکتی ہے اور نہ ماہی گیری ہو سکتی ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
آلنگ
بھارتی ریاست گجرات میں آلنگ کا شپ بریکنگ یارڈ بحری جہازوں کا دنیا کا سب سے بڑا قبرستان کہلاتا ہے۔ یہاں پر کام کرنے والے تقریباً تمام ملازمین کا تعلق شمالی بھارت سے ہے۔ یہ لوگ انتہائی عام سی کٹیاؤں میں رہتے ہیں۔ 2009ء سے اب تک آلنگ میں دو ہزار چھ سو سے زائد بحری جہازوں کو توڑا جا چکا ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
’بچث‘
آلنگ میں مزدروں کے یہ کٹائیں یا مکان بہت چھوٹے ہیں۔ ان میں نہ تو پانی کا انتظام ہے اور نہ بجلی کی سہولت
تصویر: Tomaso Clavarino
وقفہ
شدید بارش کی صورت میں ملازمین کو کام چھوڑنا پڑتا ہے۔ بغیر کسی حفاظتی انتظام کے یہ لوگ کسی بھی متروک جہاز کے عرشے پر اکھٹے ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Tomaso Clavarino
سیاحت بھی
بحری جہازوں کے ان قبرستانوں میں لوگ صرف ملازمت کی غرض سے ہی نہیں آتے بلکہ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد بھی جہازوں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھنے میں دلچسپی لیتی ہے۔ یہ لوگ ہر مرحلے کی تصاویر بناتے ہیں۔