امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا تھا کہ پاکستان نے ممبئی حملے کے مبینہ منصوبہ ساز کو دس برس کی تلاش کے بعد گرفتار کر لیا ہے۔ صدر ٹرمپ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیوں کہ حافظ سعید کہیں روپوش نہیں تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. D. Ake
اشتہار
پاکستانی حکام نے بدھ سترہ جولائی کے روز لشکر طیبہ کے بانی حافظ سعید کو دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ حافظ سعید پر ممبئی دہشت گردانہ حملوں کا مبینہ منصوبہ سازی کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکا حافظ سعید کو دہشت گرد قرار دے چکے ہیں۔
پاکستانی وزیر اعظم آئندہ ہفتے امریکا کا دورہ کرنے والے ہیں اور حافظ سعید کو اس دورے سے قبل گرفتار کیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس گرفتاری کا سہرا اپنے سر باندھتے ہوئے کہا کہ یہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان پر جنگجوؤں کے ساتھ سختی اختیار کرنے کے لیے ڈالے گئے دباؤ کا نتیجہ ہے۔
اس ٹوئیٹ کے جواب میں صدر ٹرمپ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ حافظ سعید کہیں روپوش نہیں تھے۔ گزشتہ برسوں کے دوران پاکستان میں ان کی گرفتاری اور رہائی کا سلسلہ جاری رہا لیکن وہ عوامی اجتماعات سے خطاب بھی کرتے رہے تھے۔
امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور سے متعلق کمیٹی نے صدر ٹرمپ کی ٹوئیٹ کے جواب میں لکھا، ''آپ کی اطلاع کے لیے، پاکستان انہیں دس برس سے تلاش نہیں کر رہا تھا۔ وہ آزادی سے رہ رہے تھے، انہیں دسمبر 2001، مئی 2002، اکتوبر 2002، اگست 2006 میں دو مرتبہ، دسمبر 2008، ستمبر 2009 اور جنوری 2017 میں گرفتار اور رہا کیا گیا۔ تو انہیں سزا دیے جانے تک انتظار کریں۔‘‘
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے لکھا، ''انہیں ڈھونڈنا کبھی مسئلہ نہیں تھا۔ وہ آزادی سے برسرعمل تھے اور انتہائی نمایاں بھی۔ انہیں کئی مرتبہ گرفتار اور رہا کیا گیا۔ صدر ٹرمپ کو چاہیے کہ جس نے بھی انہیں غلط معلومات فراہم کیں، اسے فوری طور پر برخاست کر دیں۔‘‘
اب تک صدر ٹرمپ کی ٹوئیٹ پر سترہ ہزار سے زائد ٹوئٹر صارفین جوابات لکھ چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان اور بھارت سے ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے جرمنی کے بارے میں بیانات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کی تعریف بھی کر چکے ہیں اور جرمنی پر تنقید بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے چانسلر میرکل کو ’عظیم‘ بھی کہا ہے اور ان کا یہ دعوی بھی ہے کہ برلن حکومت امریکا کی ’مقروض‘ ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. May
کبھی ایسا تو کبھی ویسا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015ء میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مہاجرین کے لیے سرحدیں کھولنے کے فیصلے کو ایک بہت بڑی غلطی سے تعبیر کیا تھا۔ وہ جرمنی کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں اور کبھی ان حق میں بیان بھی دیتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. May
’عظیم‘
ٹرمپ نے 2015ء میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جرمنی خاموشی سے رقم جمع کرنے اور دنیا کی ایک عظیم رہنما میرکل کے سائے میں قسمت بنانے میں لگا ہوا ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/M. Schreiber
بہت برا
’’جرمن برے ہوتے ہیں، بہت ہی برے۔ دیکھو یہ امریکا میں لاکھوں گاڑیاں فروخت کرتے ہیں۔ افسوس ناک۔ ہم اس سلسلے کو ختم کریں گے۔‘‘ جرمن جریدے ڈیئر شپیگل کے مطابق ٹرمپ نے یہ بیان مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ایک سربراہ اجلاس کے دوران دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/E. Vucci
کچھ مشترک بھی
ٹرمپ نے مارچ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا، ’’ ٹیلفون سننے کی بات ہے، تو میرے خیال میں جہاں تک اوباما انتظامیہ کا تعلق تو یہ چیز ہم میں مشترک ہے۔‘‘ ان کی اشارہ ان الزامات کی جانب تھا، جو وہ ٹیلیفون سننے کے حوالے سے اوباما انتظامیہ پر عائد کرتے رہے ہیں۔ 2013ء میں قومی سلامتی کے امریکی ادارے کی جانب سے میرکل کے ٹیلیفون گفتگو سننے کے واقعات سامنے آنے کے بعد جرمنی بھر میں شدید و غصہ پایا گیا تھا۔
تصویر: Picture alliance/R. Sachs/CNP
غیر قانونی
’’میرے خیال میں انہوں نے ان تمام غیر قانونی افراد کو پناہ دے کر ایک بہت بڑی غلطی کی ہے۔ ان تمام افراد کو، جن کا تعلق جہاں کہیں سے بھی ہے‘‘۔ ٹرمپ نے یہ بات ایک جرمن اور ایک برطانوی اخبار کو مشترکہ طور پر دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
’مقروض‘ جرمنی
ٹرمپ نے 2017ء میں میرکل سے پہلی مرتبہ ملنے کے بعد کہا تھا، ’’جعلی خبروں سے متعلق آپ نے جو سنا ہے اس سے قطع نظر میری چانسلر انگیلا میرکل سے بہت اچھی ملاقات ہوئی ہے۔ جرمنی کو بڑی رقوم نیٹو کو ادا کرنی ہیں اور طاقت ور اور مہنگا دفاع مہیا کرنے پر برلن حکومت کی جانب سے امریکا کو مزید پیسے ادا کرنے چاہیں۔‘‘
تصویر: Picture alliance/dpa/L. Mirgeler
منہ موڑنا
امریکی صدر نے جرمن حکومت کے داخلی تناؤ کے دوران اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا، ’’جرمن عوام تارکین وطن کے بحران کے تناظر میں، جس نے مخلوط حکومت کو مشکلات کا شکار کیا ہوا ہے، اپنی قیادت کے خلاف ہوتے جا رہے ہیں۔ جرمنی میں جرائم کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ لاکھوں افراد کو داخل کر کے یورپی سطح پر بہت بڑی غلطی کی گئی ہے، جس سے یورپی ثقافت پر بہت تیزی سے تبدیل ہو گئی ہے۔‘‘