حالیہ ضمنی انتخابات: بے بس قوم کا بے بس الیکشن کمیشن
20 فروری 2021ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی حامد میر نے بتایا کہ انتخابی عملے کے لاپتہ ہو جانے کی وجہ سے این اے پچھترمیں ہونے والا الیکشن تو مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ ان کے بقول یہ پہلی مرتبہ ہے الیکشن کمیشن نے خود ہی انتخابی عمل کی شفافیت پر سوال اٹھائے ہیں
بیس سے زائد 'لاپتہ‘ پریزائیڈنگ افسران کے کئی گھنٹوں تک 'غائب‘ رہنے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ہفتے کے روز جاری کیے گئے اپنے اعلامیے میں کہا کہ 20 پولنگ سٹیشنز کے نتائج پر شبہ ہے لہذا مکمل انکوائری کے بغیر غیر حتمی نیتجہ جاری کرنا ممکن نہیں ہے اور یہ معاملہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری لگتی ہے۔
دولت مندوں کے لیے سینیٹ کے ٹکٹس: کیا سیاست میں غریب آدمی کے لیے جگہ ہے؟
پنجاب حکومت کا ریسپونس
ای سی پی کے مطابق این اے 75 کے نتائج اور پولنگ عملہ 'لاپتہ' ہونے کے معاملے پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ معاملے کی اطلاع ملتے ہی رات گئے مسلسل آئی جی پنجاب ،کمشنر گجرانوالہ اور ڈی سی گجرانوالہ سے رابطے کی کوشش کرتے رہے لیکن رابطہ نہ ہوا۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ چیف سیکریٹری پنجاب سے رات تین بجے رابطہ ہوا اور ان کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ گمشدہ افسران اور پولنگ بیگز کو تلاش کی جائے گا لیکن بعد میں ان سے دوبارہ رابطہ ممکن نہ ہو سکا اور کئی گھنٹوں کے بعد تقریباً صبح چھ بجے پریزایئڈنگ افسران پولنگ بیگز کے ہمراہ واپس آئے۔
عمران حکومت کی ساکھ پر سوال
حامد میر کے مطابق لاپتہ پریزایئڈنگ افسران سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے اتنی دیر غائب رہنے کے دوران الیکشن کمیشن کے متعلقہ حکام سے فون پر رابطہ کیوں نہیں کیا تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ حامد میر کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیز در اصل وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے۔
پاکستانی سیاست سبزی منڈی کی کیچڑ زدہ آڑھت کیسے؟
پاکستان کے ایک ممتاز تجزیہ نگار مجیب الرحمن شامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سیالکوٹ میں ضمنی الیکشن کے موقعے پر ہونے والی واردات اتنی افسوسناک ہے کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ شامی کے مطابق اس صورت حال نے عمران حکومت کی ساکھ پر سوال اٹھا دئیے ہیں۔
ضمنی الیکشن کی شفافیت
اگرچہ پاکستان میں بعض سوشل میڈیا صارفین ڈھکے چھپے انداز میں سوالات اٹھا کر حالیہ ضمنی انتخابات کے دوران ہونے والے کچھ واقعات میں خفیہ ہاتھ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستان میں تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا خیال ہے کہ اس ضمن میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے تحقیقات کا انتظار کیا جانا چاہیئے۔
مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ پاکستان نون لیگ اور تحریک انصاف دونوں کے پاس ووٹ ہیں دونوں کے مخالفین بھی موجود ہیں۔ ان کے بقول اہل سیاست کو اب مرنے مارنے کی سیاست کے خاتمے کی طرف آنا چاہیئے اور انہیں انتخاب جنگ کی طرح نہیں بلکہ کرکٹ میچ کی طرح لڑنا چاہیئے۔
ان ضمنی انتخابات سے لگتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں پنجاب میں اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف میں ہی ہو گا اور ان انتخابات میں نظر آنے والے مار دھاڑ کے واقعات سے پتہ چل رہا ہے کہ ملکی سیاست میں تلخی کس قدر بڑھ چکی ہے۔
پاکستانی سیاست میں درآمد شدہ کرداروں کا پتلی تماشہ
ووٹ بینک
روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز کے گروپ ایڈیٹر ارشاد احمد عارف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جمعے کے روز ہونے والے ضمنی انتخابات پی ڈی ایم کی احتجاجی مہم کے بعد منعقد ہوئے تھے ۔ ان انتخابات کے نتائج دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ عوامی مقبولیت کس جماعت کے پاس ہے۔
کے پی میں تحریک انصاف کی ایک سیٹ پی ڈی ایم کو ملی اور پی ڈی ایم کی سیٹ پی ٹی آئی نے حاصل کی ہے۔ ادھر سیالکوٹ میں مسلم لیگ نون کو پچھلے الیکشن میں جس سیٹ پر تیس ہزار ووٹوں کی برتری ملی تھی وہاں اس الیکشن میں ان کی برتری چند ہزار تک رہی۔ ان کے بقول یہ کہنا درست ہو گا کہ دونوں جماعتوں کے پاس اپنا اپنا ووٹ بنک موجود ہے اور وہ اپنی مقبولیت بڑھانے کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔
ارشاد عارف کے بقول ان انتخابات میں انتظامیہ کی نا اہلی کھل کر سامنے آئی ہے۔ وہ انتخاب کے دوران غنڈہ گردی روکنے میں ناکام رہی ہے۔