حامد کرزئی کا دورہء پاکستان
25 اگست 2013خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغان صدر اپنی مفاہمتی پالیسی کے تحت حکومت پاکستان سے مزید طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کریں گے تاکہ ان کی حکومت کے طالبان کے ساتھ تعطل کے شکار مذاکرات کو دوبارہ سے بحال کیا جاسکے۔
افغانستان میں گذشتہ بارہ سال سے جاری مسلح تنازع کے حل کے لیے پاکستان کا کردار کلیدی تصور کیا جارہا ہے۔ افغان حکومت آئندہ سال صدارتی انتخابات اور نیٹو کی آئی سیف دستوں کے انخلاء سے قبل افغانستان میں قیام امن کے لیے کوشاں ہے۔
گذشتہ ایک دہائی کے دوران دنوں ملکوں کے تعلقات میں کافی اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا ہے۔ فروری کے مہینے میں برطانیہ کی میزبانی میں ہونے والی سہ فریقی کانفرنس کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں قدرے بہتری دیکھنے میں آئی تھی۔ بعد ازاں دوحہ میں طالبان دفتر کے قیام سے دونوں ملکوں کے تعلقات ایک مرتبہ پھر سرد مہری کا شکار ہوگئے تھے۔
پاکستان میں افغان سفیر عمر داؤد زئی نے حامد کرزئی کے دورہ پاکستان کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا کہ افغان صدر کے اس دورے سے پاکستان کی جیلوں میں قید اہم افغان طالبان قیدیوں کی رہائی میں مدد ملے گی۔
افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے رکن محمد اسماعیل قاسم یار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان طالبان کے سابق مرکزی رہنما عبدالغنی برادر سمیت دیگر اعلیٰ رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کرے گا۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا، ’’ ہم پاکستانی جیلوں میں قید ان طالبان رہنماؤں کی رہائی کے لیے کوشش کریں گے جو وہاں سیاسی بنیادوں پر قید ہیں اور امن عمل کے لیے مذاکرات کے خواہاں ہیں، ملا عبدلغنی برادر بھی انہی میں سے ایک ہیں۔‘‘
پاکستان نے گذشتہ برس دومرتبہ کُل 26 طالبان قیدیوں کو پاکستانی جیلوں سے رہا کیا تھا، جن میں طالبان دورِ حکومت کے وزیر انصاف نور الدین ترابی بھی شامل تھے۔ افغان امن مذاکرات کاروں نے پاکستان کے اس عمل کو افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے ایک بڑی پیش رفت قرار دیا تھا۔
لیکن رواں برس جون کے مہینے میں صورت حال اس وقت کشیدگی ہوگئی جب افغان طالبان سے مذاکرت کے عمل کو مزید بہتر بنانے کے لیے دوحہ میں طالبان کا دفتر کھولا گیا۔ افغان صدر حامد کرزئی اس مسئلے پر سیخ پا ہو گئے تھے۔
افغان صدر کا موقف رہا ہے کہ طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کے لیے ان کی حکومت کو مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں طالبان کا دوحہ دفتر بند کر دیا گیا۔ پاکستان میں افغان سفیر داؤد زئی جو کہ ممکنہ طور پر کرزئی کے جانشین بھی ہوسکتے ہیں نے اس حوالے سے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں کہا، ’’ اگر پاکستان ایمانداری سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرے تو یہ عمل افغانستان کی خواہشات کے مطابق ہوسکتا ہے۔‘‘
افغان فوج کے سربراہ شیر محمد کریمی نے حالیہ دنوں میں دئے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر پاکستان دلچسپی لے تو افغانستان میں جاری جنگ ہفتوں میں ختم ہوسکتی ہے۔
پاکستان کے ریاستی اداروں پر اکثر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ افغانستان میں بدامنی کے ذمہ دار طالبان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے ہر ممکن امداد فراہم کر رہا ہے۔
’افغان سینڑ‘ کابل کے ڈائریکٹر عبدالوحید وفا کے مطابق افغان صدر پر امید ہیں کہ وہ پاکستان کی نو منتخب حکومت کے تعاون سے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ پاکستان کے معروف تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کے مطابق کرزئی کا حالیہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول میں لانے کے لیے معاون ثابت ہوگا۔ انہوں نے افغان امن عمل کے حوالے سے کہا، ’’ کرزئی مذاکرات چاہتے ہیں لیکن وہ انہیں خود کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔‘‘