حاملہ افغان بچی کا قتل، کم عمری میں شادی پر بحث
20 جولائی 2016بدھ کے روز انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے افغان حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ افغانستان میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جائے۔
یہ مطالبہ 14 سالہ حاملہ بچی زہرہ کے والدین کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ زہرہ کو اس کے شوہر کے اہل خانہ نے تشدد کے بعد آگ لگا دی۔ افغانستان کے وسطی صوبے گور میں پیش آنے والے اس واقعے میں زہرہ ہلاک ہو گئی تھی۔
ادھر ہلاک ہونے والی اس کم عمر بچی کے شوہر کے رشتہ داروں کا اصرار ہے کہ زہرہ نے خودسوزی کی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چار ماہ سے حاملہ زہرہ، خاندانوں کے درمیان تنازعات نمٹانے کے لیے کم عمری میں بیٹی کی شادی متعلقہ خاندان میں کرنے کی روایت کا نشانہ بنی۔ افغانستان کے دیہی علاقے اس روایت سے شدید متاثر ہیں۔
گزشتہ ہفتے زہرہ کی ہلاکت نے پورے افغانستان کو دھچکا پہنچایا، جہاں اب انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ افغانستان میں کم عمری میں شادیوں پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی جائے۔
’سیو دا چلڈرن‘ نامی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’یہ ایک دل دوز صورت حال ہے، جس میں زہرہ نے ناقابل بیان دکھ برداشت کیا۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’زہرہ کی ہلاکت ان حالات کی بدترین مثال ہے، تاہم ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کم عمری میں شادی افغانستان میں ہرگز کوئی اچھوتی بات نہیں۔ یہ روایت پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کا خاتمہ ضروری ہے۔‘‘
افغانستان کے ’آزاد انسانی حقوق کمیشن‘ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ افغانستان میں کم عمری میں شادیوں کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
رواں ہفتے جاری کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان شادیوں کی وجہ عدم تحفظ کا احساس اور غربت ہے، جہاں ہر خاندان جلد سے جلد ان بچیوں کو دوسروں کے حوالے کر کے بری الذمہ ہونا اور اپنی جان چھڑانا چاہتا ہے۔