لاہور میں ایک شخص نے تشدد کرکے اپنی حاملہ بیوی کو قتل کر دیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق خواتین کی بڑی تعداد اب بھی تشدد کے کیسز رجسٹر نہیں کرواتی۔
اشتہار
پاکستانی میڈیا کے مطابق لاہور کے علاقے اچھرہ کے رہائشی شہباز کی شادی سندس سے تین برس قبل ہوئی تھی۔ مقامی پولیس کے مطابق 26 سالہ سندس حاملہ تھی۔ اس کے شوہر نے اسے اتنا مارا کہ وہ جانبر نہ ہوسکی۔ سندس کو قتل کرنے کے بعد اس کا شوہر فرار ہو گیا اور اس کی لاش کو جناح ہسپتال لاہور پہنچا دیا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق ملک میں خواتین پر تشدد کے واقعات عام ہیں۔ گزشتہ برس ملک میں غیرت کے نام پر ایک ہزار سے زائد خواتین کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق سن 2015 میں نو سو خواتین کو ریپ اور جنسی حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ 143 خواتین کو جلایا گیا، 833 خواتین کو اغوا کیا گیا۔
عورت معاشرے کا ہمہ گیر کردار
دیگر معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ معاشی بوجھ تلے دبے طبقے سے تعلق رکھتی ہو یا خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانے سے، وہ اپنے فرائض بخوبی انجام دینے کی کوشش کرتی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
انسانیت کی خدمت پر مامور
انسانیت کی خدمت پر مامور نرسوں کو آج بھی پاکستان میں معتبر رتبہ نہیں دیا جاتا۔ انتہائی مشکل حالات میں تعیلم اور تربیت حاصل کرنے اور پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھنے کے بعد نرسوں کو گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کردار تبدیل ہوتے ہوئے
معاشی بوجھ تلے دبے خاندان کی عورت 75 سال کی عمر میں بھی با عزت طریقے سے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے چھوٹے سے کھوکھے پر چھوٹی موٹی اشیا فروخت کر رہی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کوزہ گری ایک فن
مٹی سے خوبصورت کوزے اور کونڈے بنانے والی یہ خواتین برسوں سے کوزہ گری کا کام کر رہی ہیں۔ کئی پشتوں سے اس کام کو سرانجام دینے والے یہ خواتین اپنے خاندانوں کی لیے ذریعے معاش بنی ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
نڈر خواتین
پولیو کے خلاف مہم میں خواتین کا کردار اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ شدت پسند حلقوں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں اور حملوں کے باوجود اس مہم میں کئی ہزار خواتین حصہ لے رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو اخراجات اٹھانے والی
مچھلی فروش زرین کا تعلق خانہ بدوش قبیلے سے ہے جو قبیلے کی دیگر خواتین کے ساتھ شہر میں جگہ جگہ ٹھیلے لگا کر گھریلو اخراجات کا بوجھ اٹھانے میں اپنے مردوں کی مدد کرتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
بیوٹی پارلرز
جن خواتین کو گھرں سے نکل کر مردوں کے ہمراہ کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی وہ شہر کے گلی کوچوں میں کُھلے بیوٹی پارلرز میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جہاں وہ دن کے آٹھ گھنٹے صرف ساتھی خواتین کے ساتھ ہی وقت گزارتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو ملازمائیں
پاکستان کی لاکھوں گھریلو ملازمائیں انتہائی کم اجرت کے عوض 16 گھنٹے سے زائد مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین اپنے گھروں کی واحد کفیل ہوتی ہیں۔ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ان خواتین کے شوہر بے روزگار ہونے یا نشے کے عادی ہونے کے باعث ان کی مالی امداد نہیں کر پاتے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
یہ بھی پاکستانی خواتین ہیں
چند دہائیوں قبل تک پاکستان میں ماڈلنگ کے شعبے سے وابسطہ خواتین کو معاشرے میں تنقیدی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ اب فیشن انڈسٹری میں خواتین کی شمولیت اور کردار کو قبول کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
تمام کام خوش اسلوبی سے
عورت پر کام کا بوُجھ جتنا بھی ہو وہ اپنی فطری ذمہ داری کو نظر انداز نہیں کرتی۔ محنت کرنا، کمانا اور بچوں کو سنبھالنا وہ بھی خوش اسلوبی سے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی سرگرمیاں
ایسے فیسٹیول معنقد ہو رہے ہیں جن میں خواتین اپنے ہنر کا بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ چاہے اشیاءِ خوردونوش کا اسٹال ہو یا آرٹ اینڈ کرافٹس، خواتین ان میلوں میں بھر پور طرح سے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی مہم میں بھی پیش پیش
’کراچی کو خوبصورت بنانے اور امن کا پیغام دینے‘ کے لیے مردوں کے ہمراہ خواتین بھی شانہ بشانہ کام کرتی ہوئی نظر آئیں۔ خواتین صرف گھروں یا آفس تک محدود نہیں بلکہ ہر جگہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سنگھارعورت کا فطری شوق
سڑک کنارے میوہ جات فروخت کرنے کے دوران خواتین ایک دوسرے کو مہندی لگا کر اپنا دل بھی بہلا لیتی ہیں اور بننے سنورنے کا سامان بھی کر لیتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کیا خاندان کا معاشی بوُجھ صرف مرد اُٹھاتے ہیں؟
دفتر ہو یا دیگر کام یا چاہے گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیےسڑک پر بیٹھ کر تربوز بیچنے کا ٹھیلہ ہی کیوں نہ لگانہ پڑے، خواتین کہیں پیچھے نہیں ہٹتیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
فیشن کی صنعت ترقی کی طرف گامزن
پاکستان میں فیشن کی صنعت روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ اسی حوالے سے ہونے والے فیشن شُوز بھی اب معمول کا حصہ ہیں اور ان کے انتظام سے سے لے کر آرائش تک ہر جگہ خواتین جلوہ گر نظر آتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
14 تصاویر1 | 14
پاکستانی پارلیمنٹ نے اسی ماہ ’غیرت کے نام‘ پر قتل کے حوالے سے پیش کردہ مسودہٴ قانون کی منظوری دے دی ہے۔ اب غیرت کے نام پر قتل کرنے والے شخص کو سزائے موت اور عمر قید کی سزا ہو سکے گی۔ پاکستانی ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کرنے والے ’قصاص و دیت‘ کے نام پر آسانی سے بچ جایا کرتے ہیں۔ اب معافی ملنے کی صورت میں بھی مجرم کو عمر قید کی سزا ہو گی۔ ماہرین کے مطابق اِس قانون میں یہ ترمیم ایک اہم اور مثبت سماجی فیصلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم کچھ قانونی ماہرین کے مطابق اس قانون میں مزید سختی ہونی چاہیے تھی۔
غیرت کے نام پر قتل کے بڑھتے واقعات
پاکستان کی قومی اسمبلی میں ریپ سے متعلق بھی ایک بل منظور کر لیا گیا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت صرف میڈیکل ٹیسٹ سے حاصل شدہ ثبوت جرم ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں تھے۔ لیکن اس بل کے تحت اب عدالت میں میڈیل ٹیسٹ اور ڈی این ٹیسٹ بھی پیش کیے جا سکیں گے۔ اس بل کے حوالے سے ایک غیر سرکاری تنظیم ’وار اگینسٹ ریپ‘ کے پروگرام آفیسر شیراز احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بل میں ڈی این اے ٹیسٹنگ کو لازمی قرار دیا گیا ہے، اگر پولیس افسر جرم کی صحیح طریقے سے کاروائی نہیں کرتا تو اسے بھی سزا دی جائے گئی۔ اس کے علاہ اب ریپ کا شکار ہونے والی خاتون کی ہسٹری نہیں دیکھی جائے گی۔‘‘ اس قانون کے تحت ریپ جیسے گھناؤنے جرم کے مرتکب شخص کو عمر قید کی سزا ہو سکے گی۔
جہاں پاکستان میں ان حالیہ قوانین کی منظوری ایک مثبت پیش رفت ہے وہیں بہت سے ماہرین کی رائے میں پاکستانی معاشرے میں سندس جیسی لڑکیوں کو قتل اور تشدد جیسے سنگین جرائم سے بچانے کے لیے قانون کا نفاذ ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین کے حوالے سے معاشرے کی سوچ میں مثبت تبدیلی لانے کا عمل تیز کرنا ہوگا۔