حاملہ خواتین ’پین کِلر‘ دوائیں زیادہ استعمال نہ کریں، جائزہ
21 مئی 2015نیوز ایجنسی روئٹرز نے لندن سے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اگر حاملہ خواتین زیادہ لمبے عرصے تک ’پین کِلر‘ ادویات کا استعمال کریں تو اُن کے ہاں جنم لینے والے بیٹوں کے ہاں ٹیسٹوسٹیرون کی مقدار خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے۔ سائنسدانوں نے یہ جائزہ بدھ کے روز جاری کیا اور بتایا کہ ایسے بیٹوں کو بعد ازاں اپنی زندگی میں افزائش نسل کے حوالے سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سائنسدانوں نے اپنے اس جائزے کے دوران چوہوں پر تجربات کیے، جن کے جسموں میں انسانی ٹِشوز کی پیوندکاری کی گئی تھی۔ صرف ایک ہفتے تک پیراسیٹامول کے ذریعے علاج کا نتیجہ یہ دیکھا گیا کہ چوہوں میں ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔ ٹیسٹوسٹیرون وہ ہارمون ہے، جو ایک مرد کی صحت کے لیے زندگی بھر بے انتہا اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
یہ مطالعاتی جائزہ ایڈنبرا یونیورسٹی میں کلینیکل ریسرچ فیلو راڈ مچل کی نگرانی میں مرتب کیا گیا۔ روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے راڈ مچل نے بتایا: ’’ہم حاملہ خواتین کو مشورہ دیں گے کہ وہ درد ختم کرنے والی ادویات کی کم سے کم خوراک مختصر سے مختصر مدت تک کے لیے ہی استعمال کریں۔‘‘
پیراسیٹامول نامی دوا ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ٹائیلینول کے نام سے مشہور ہے۔ درد دُور کرنے اور بخار کم کرنے کے لیے اس دوا کا استعمال بہت عام ہے۔ حمل کے دوران تمام مراحل پر اس دوا کا باقاعدگی سے استعمال کرایا جاتا ہے۔
اس مطالعاتی جائزے کے نتائج ’سائنس ٹرانسلیشنل میڈیسن‘ نامی جریدے میں شائع ہوئے ہیں۔ اس جائزے میں یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی کہ انسانی ٹِشوز کے حامل چوہوں میں پیراسیٹامول کے استعمال کے نتیجے میں ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ حمل کے دوران ماں کے پیٹ میں لڑکے کے خصیوں کی نشو و نما کس طرح سے ہوتی ہے اور وہ کام کس طرح سے کرتے ہیں۔
جائزے کے دوران مِچل کی ٹیم نے چوہوں کو یا تو چوبیس گھنٹے تک یا پھر سات دن تک پیراسیٹامول کا باقاعدہ استعمال کروایا اور اس دوا کی آخری خوراک کے استعمال کے ایک گھنٹے بعد یہ ماپا کہ چوہے میں موجود انسانی ٹِشوز میں ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار کتنی تھی۔
سائنسدانوں نے یہ دیکھا کہ چوبیس گھنٹوں کے دوران پیراسیٹامول کے ذریعے علاج کے بعد ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ اس کے برعکس سات دن تک اس دوا کے استعمال کے نتیجے میں ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار میں اکٹھے پنتالیس فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
مچل اس نتیجے پر پہنچے کہ جن لڑکوں کے ہاں ماں کے پیٹ میں ہوتے ہوئے ٹیسٹوسٹیرون نامی ہارمون کی پیداوار کم رہتی ہے، اُن میں اس بات کے خطرات بڑھ جاتے ہیں کہ بڑے ہو کر اُن میں تولیدی صلاحیت نہیں رہے گی، اُنہیں خصیوں کا کینسر ہو سکتا ہے یا پھر اُن کے خصیے پیٹ کے اندر ہی رہیں گے۔
روئٹرز نے ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ مطالعاتی جائزہ ’ٹھوس نتائج‘ کا حامل ہے اور اس میں اہم باتوں کا پتہ چلایا گیا ہے۔ دوسری جانب ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ نتائج انسانی ٹِشوز کے حامل جانوروں پر تجربات سے حاصل کیے گئے ہیں اور یہ طے کرنا کافی مشکل ہو گا کہ انسانوں پر اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ ایسے میں ان ماہرین نے اسی سمت میں مزید تجربات کا مشورہ دیا ہے۔