حاملہ عورت کو قتل کر کے نازائیدہ بچہ نکال لیا، ملزمہ گرفتار
16 اکتوبر 2020
امریکا میں ایک ایسی خاتون کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جس نے ایک حاملہ عورت کو قتل کر کے اس کا نازائیدہ بچہ نکال لیا تھا۔ بعد میں مبینہ قاتلہ نے پولیس کو بتایا کہ اس بچے کو اس نے خود جنم دیا تھا جو سانس نہیں لے رہا تھا۔
اشتہار
اس خوف ناک جرم کی مبینہ ملزمہ کا نام ٹیلر پارکر اور عمر ستائیس برس ہے۔ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن سے جمعہ سولہ اکتوبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ٹیلر پارکر کو اسی امریکی ریاست کی ایک جیل میں رکھا گیا ہے۔
عورت کس کس روپ ميں استحصال کا شکار
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين غلامی پر مجبور ہيں اور کئی صورتوں ميں خواتين کا استحصال جاری ہے۔ جبری مشقت، کم عمری ميں شادی، جنسی ہراسگی اور ديگر کئی جرائم سے سب سے زيادہ متاثرہ عورتيں ہی ہيں۔
تصویر: dapd
جدید غلامی کيا ہے؟
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق موجودہ دور ميں غلامی ايسی صورت حال کو کہا جاتا ہے، جس ميں کسی کی ذاتی آزادی کو ختم کيا جائے اور جہاں کسی کے مالی فائدے کے ليے کسی دوسرے شخص کا استعمال کيا جائے۔
تصویر: Louisa Gouliamaki/AFP/Getty Images
تشدد، جبر، جنسی ہراسگی: جدید غلامی کے انداز
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين مختلف صورتوں ميں غلامی کر رہی ہيں۔ 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کی رپورٹ کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت، قرض کے بدلے کام، جبری شاديوں اور ديگر صورتوں ميں وسيع پيمانے پر عورتوں کا استحصال جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
جنسی استحصال آج بھی ايک بڑا مسئلہ
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کے مطابق موجودہ دور میں جنسی استحصال کے متاثرين ميں خواتين کا تناسب ننانوے فيصد ہے۔
تصویر: Sazzad Hossain/DW
جبری مشقت: مردوں کے مقابلے ميں عورتيں زيادہ متاثر
انٹرنيشنل ليبر آرگنائزيشن اور بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (IOM) کے تعاون سے اکھٹے کيے جانے والے 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کے اعداد کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت کے متاثرين ميں عورتوں کا تناسب چون فيصد ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
جبری شادیاں، لڑکيوں کے ليے بڑا مسئلہ
رپورٹ کے مطابق قرض کے بدلے یا جبری شاديوں کے متاثرين ميں خواتین کا تناسب چوراسی فيصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Bouys
نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے مہم
'واک فری‘ اور اقوام متحدہ کا 'ايوری وومين، ايوری چائلڈ‘ نامی پروگرام نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے ہے۔ اس مہم کے ذريعے جبری يا کم عمری ميں شادی کے رواج کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، جو اب بھی 136 ممالک ميں قانوناً جائز ہے۔ يہ مہم کفالہ جيسے نظام کے خاتمے کی کوشش کرے گی، جس ميں ايک ملازم کو مالک سے جوڑ ديتا ہے۔
تصویر: dapd
6 تصاویر1 | 6
کل جمعرات کے روز ابتدائی کارروائی کے بعد ایک عدالت نے اس کی ممکنہ ضمانت کے لیے پانچ ملین ڈالر کا زر ضمانت مقرر کیا تھا۔
ملزمہ کو جمعہ نو اکتوبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ٹیکساس کی ہمسایہ ریاست اوکلاہوما میں حکام نے بتایا کہ ٹیلر کو اس وقت گرفتار کیا گیا، جب اس نے بتایا کہ اس نے ایک ایسے بچے کو جنم دیا تھا، جو اپنی پیدائش کے وقت سانس نہیں لے رہا تھا۔
گرفتاری کے وقت ٹیلر پارکر نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ خود اس بچے کی ماں تھی اور اس نے اسے ایک سڑک کے کنارے جنم دیا تھا۔
اس بچے کو فوری طور پر ایک قریبی ہسپتال لے جایا گیا تھا، جہاں ڈاکٹروں نے اس کے مردہ ہونے کی تصدیق کر دی تھی۔
اسی روز مقتولہ کی لاش بھی مل گئی
جس دن پولیس نے ٹیلر پارکر کو گرفتار کیا، اسی روز ٹیکساس کے ایک چھوٹے سے شہر سے ایک خاتون کی لاش بھی ملی تھی۔ اس خاتون کا نام ریگن سائمنز ہینکاک تھا، جو اپنے قتل کے وقت حاملہ تھی۔
بھارت: خواتین کے خلاف جرائم
بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 2018 کے مقابلے 2019 میں 7 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ اس مدت میں فی ایک لاکھ پر جرائم کی شرح 58.8 فیصد سے بڑھ کر 62.4 فیصد ہوگئی۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/S. Pal Chaudhury
روزانہ 88 ریپ
بھارت میں 2019 میں جنسی زیادتی کے 32033 کیسز درج کیے گئے یعنی یومیہ اوسطاً 88 کیسز۔ راجستھان میں سب سے زیادہ 5997 کیسز، اترپردیش میں 3065 اور مدھیا پردیش میں 2485 کیسز درج ہوئے۔ تاہم بیشتر واقعات میں پولیس پر کیس درج نہیں کرنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔
تصویر: imago images/Pacific Press Agency
دلتوں کا اوسط گیارہ فیصد
بھارت کے حکومتی ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ ز بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2019 میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین میں گیارہ فیصد انتہائی پسماندہ طبقات یعنی دلت طبقے سے تعلق رکھنے والی تھیں۔
تصویر: Getty Images
اپنے ہی دشمن
خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے 30.9 فیصد معاملات میں ملزم قریبی رشتے دار تھے۔ سماجی بدنامی کے خوف سے ایسے بیشتر واقعات رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/
کینڈل لائٹ مظاہرے
جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ اگر میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس واقعہ اور حکومت کے خلاف مظاہرے بھی ہوتے ہیں لیکن پھر اگلے واقعہ تک سب کچھ ’شانت‘ ہوجاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/Masrat Zahra
نربھیا کیس
دسمبر 2012 کے دہلی اجتماعی جنسی زیادتی کیس کے بعد پورے بھارت میں مظاہرے ہوئے۔ نربھیا کیس کے نام سے مشہور اس واقعہ کے بعد حکومت نے خواتین کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بھی بنائے تاہم مجرموں پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
بیٹی بچاو
وزیر اعظم نریندرمودی نے 2015 ’بیٹی بچاو، بیٹی پڑھاو‘ اسکیم شروع کی جس کا مقصد صنفی تناسب کو بہتر بنانا تھا۔ تاہم جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات کے بعد ان کے مخالفین طنزیہ طور پر کہتے ہیں کہ’’مودی جی نے تو پہلے ہی متنبہ کردیا تھا کہ’بیٹی بچاو‘۔ اب یہ ہر والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بیٹی کو خود بچائے۔“
تصویر: Reuters/Sivaram V
قانونی جوڑ توڑ
جنسی زیادتی کے ملزمین کو سزائیں دینے کی شرح میں 2007 کے بعد سے زبردست گراوٹ آئی ہے۔ 2006 میں سزاوں کی شرح 27 فیصد تھی لیکن 2016 میں یہ گھٹ کر 18.9 فیصد رہ گئی۔ ملزمین قانونی پیچیدگیوں کا سہارا لے کر آسانی سے بچ نکلتے ہیں۔
تصویر: Reuters
30 فیصد ممبران پارلیمان ملزم
جنسی زیادتی کے ملزم سیاسی رہنماوں کو شا ذ ونادر ہی سزائیں مل پاتی ہیں۔ بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں، لوک سبھا کے تقریباً 30 فیصد موجودہ اراکین کے خلاف خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور اغوا جیسے سنگین الزامات ہیں۔
تصویر: Imago/Hindustan Times
وحشیانہ جرم
جنسی درندے کسی بھی عمر کی خاتون کو اپنی درندگی کا شکار بنالیتے ہیں۔ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والوں میں چند ماہ کی بچی سے لے کر 80 برس کی بزرگ خواتین تک شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/F. Khan
ہر سطح پر اصلاح کی ضرورت
ماہرین سماجیات کا کہتے ہیں کہ صرف قانون سازی کے ذریعہ جنسی زیادتی کے جرائم کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے سماجی سطح پر بھی بیداری اور نگرانی کا نظام قائم کرنا ہوگا۔
تحریر: جاوید اختر، نئی دہلی
تصویر: Getty Images/N. Seelam
10 تصاویر1 | 10
طبی معائنے کے بعد ثابت ہو گیا تھا کہ ریگن کی زچگی کا وقت کافی قریب تھا مگر جب اس کی لاش ملی، تو اس کے رحمِ مادر سے اس کا نازائیدہ بچہ غائب تھا۔
دستیاب شواہد کی بنیاد پر پولیس کو تقریباﹰ یقین ہے کہ ریگن کو ٹیلر پارکر نے ہی قتل کیا تھا۔ اس لیے کہ ریاست اوکلاہوما میں جس جگہ ایک سڑک کے کنارے سے مبینہ قاتلہ کو گرفتار کیا گیا تھا، مقتولہ حاملہ خاتون کی لاش ریاست ٹیکساس میں اس سے صرف 20 کلومیٹر کے فاصلے سے ملی تھی۔
ٹیلر پارکر کو اپنے خلاف قتل اور اغوا کے الزامات کا سامنا ہے۔ اس کے خلاف مقدمے کی سماعت ٹیکساس کی ایک عدالت میں مکمل کی جائے گی، کیونکہ وہ اپنے مشتبہ جرائم کی مرتکب اسی ریاست میں ہوئی۔
م م / ع ا (اے پی، اے ایف پی)
گزشتہ برس جرمنی میں کس نوعیت کے کتنے جرائم ہوئے؟
جرمنی میں جرائم سے متعلق تازہ اعداد و شمار کے مطابق سن 2017 میں ملک میں رونما ہونے والے جرائم کی شرح اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں قریب دس فیصد کم رہی۔
تصویر: Colourbox/Andrey Armyagov
2017ء میں مجموعی طور پر 5.76 ملین جرائم ریکارڈ کیے گئے جو کہ سن 2016 کے مقابلے میں 9.6 فیصد کم ہیں۔
تصویر: Imago/photothek/T. Imo
ان میں سے ایک تہائی جرائم چوری چکاری کی واردتوں کے تھے، یہ تعداد بھی سن 2016 کے مقابلے میں بارہ فیصد کم ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H.-C. Dittrich
دوکانوں میں چوریوں کے ساڑھے تین لاکھ واقعات ریکارڈ کیے گئے جب کہ جیب کاٹے جانے کے ایک لاکھ ستائیس ہزار واقعات رپورٹ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
گزشتہ برس ملک میں تینتیس ہزار سے زائد کاریں اور تین لاکھ سائیکلیں چوری ہوئیں۔
تصویر: Colourbox/Andrey Armyagov
گزشتہ برس قتل کے 785 واقعات رجسٹر کیے گئے جو کہ سن 2016 کے مقابلے میں 3.2 فیصد زیادہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tnn
منشیات سے متعلقہ جرائم میں نو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا، ایسے تین لاکھ تیس ہزار جرائم رجسٹر کیے گئے۔
تصویر: Reuters
چائلڈ پورن گرافی کے واقعات میں 14.5 فیصد اضافہ ہوا، ایسے ساڑھے چھ ہزار مقدمات درج ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Nissen
سات لاکھ چھتیس ہزار جرائم میں غیر ملکی ملوث پائے گئے جو کہ سن 2016 کے مقابلے میں تئیس فیصد کم ہے۔