حجاب کے حق میں یورپی مہم فرانس کی طرف سے تنقید کے بعد منسوخ
3 نومبر 2021
یورپ میں شخصی آزادی اور سماجی تنوع کے دلائل کے ساتھ شروع کردہ عورتوں کے حجاب پہننے کے حق میں ایک مہم فرانس کی طرف سے شدید تنقید کے بعد منسوخ کر دی گئی۔ اس آن لائن مہم کے لیے مالی وسائل یورپی یونین نے بھی مہیا کیے تھے۔
اشتہار
فرانس کے شہر اسٹراسبرگ سے بدھ تین نومبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس مہم کا آغاز پورے یورپ میں انسانی اور شہری حقوق کے لیے سرگرم تنظیم کونسل آف یورپ نے کیا تھا۔
اس مہم کا مقصد یہ تھا کہ یورپی معاشروں میں سماجی تنوع کی مزید حوصلہ افزائی کرتے ہوئے خواتین کی طرف سے اس حجاب یا ہیڈ اسکارف کے استعمال کی آزادی کو فروغ دیا جائے، جو عام طور پر مسلم عورتیں پہنتی ہیں۔
فرانسیسی دائیں بازو کی طرف سے مخالفت
یہ مہم فرانس کے شہر اسٹراسبرگ میں قائم کونسل آف یورپ نے گزشتہ ہفتے شروع کی تھی۔ مگر اس کی فوری طور پر فرانس میں شدید مخالفت کی جانے لگی تھی، جو خود کو انتہائی حد تک سیکولر ملک قرار دیتا ہے۔
فرانس میں یہ مخالفت زیادہ تر دائیں باز وکے سیاست دانوں کی طرف سے کی گئی، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ یورپی یونین کے رکن اس ملک میں اگلے سال موسم بہار میں صدارتی انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔
اس مہم کے حوالے سے کی گئی ٹویٹس میں دو ایسی نوجوان اور مسکراتی ہوئی خواتین دیکھی جا سکتی تھیں، جن میں سے ایک کے بال کھلے تھے اور دوسری نے مسلم ہیڈ اسکارف پہنا ہوا تھا۔ ان دونوں خواتین کے پورٹریٹس کے ساتھ لکھے گئے نعروں میں سے ایک یہ بھی تھا: ''خوبصورتی تو تنوع میں ہے، جیسے آزادی حجاب پہننے میں بھی ہے۔‘‘
اس نعرے کے ساتھ یہ تحریر بھی تھی: ''اگر ہر کوئی ایک سا ہی نظر آنے لگے، تو یہ کتنی بور کر دینے والی بات ہو گی؟ تنوع کی موجودگی پر خوشی منائیں اور حجاب کا احترام کریں۔‘‘
'اسلام تو آزادی کا دشمن ہے‘
اس یورپی مہم کے خلاف فرانس میں انتہائی دائیں بازو کے سیاست دانوں کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات میں ملک میں تارکین وطن کی آمد کے مخالف سیاسی حلقے پیش پیش تھے۔ ان سیاسی رہنماؤں میں ایسی شخصیات بھی شامل تھیں، جو اگلے برس ہونے والے صدارتی الیکشن میں موجودہ صدر ایمانوئل ماکروں کے مقابلے میں امیدواری کی خواہش مند ہیں اور فرانس میں مسلم خواتین کے عوامی مقامات پر حجاب پہننے کی شدت سے مخالفت کرتی ہیں۔
انہی سیاستدانوں میں سے ایک انتہائی دائیں بازو کے ایرک زیمور بھی تھے، جنہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''اسلام تو آزادی کا دشمن ہے۔ یہ مہم بھی سچائی کی دشمن ہے۔‘‘ ایرک زیمور نے ابھی تک اپنی انتخابی امیدواری کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا لیکن رائے عامہ کے چند جائزوں کے مطابق زیمور ایمانوئل ماکروں کے حریف امیدوار کے طور پر فرانس کو صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کی رائے دہی تک بھی لے جا سکتے ہیں۔
اشتہار
متنازعہ خاتون سیاستدان لے پین کا الزام
فرانس میں 2017ء کے صدارتی الیکشن میں موجودہ صدر ماکروں کی مرکزی حریف امیدوار اور متنازعہ خاتون سیاستدان مارین لے پین نے اس مہم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا، ''اس یورپی مہم کے دوران اسلام پسندوں کے حجاب کی ترویج کا اقدام ایک غیر مہذب اور اسکینڈل بن جانے والی کوشش ہے، وہ بھی اس وقت جب کئی ملین خواتین اس طرح کی غلامی کے خلاف بڑی ہمت سے جدوجہد کر رہی ہیں۔‘‘
مذہبِ اسلام میں مسلمان عورتوں کو اپنا جسم ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن ایک عورت کو کتنا پردہ کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے مسلمان علماء مختلف رائے بھی رکھتے ہیں۔ چند مذہبی ملبوسات اس پکچر گیلری میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
حجاب
زیادہ تر علما کی رائے میں حجاب جو کہ عورت کے سر اور گردن کو ڈھکتا ہے، عورتوں کو پہننا لازمی ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان عورتیں مختلف ڈیزائنوں اور رنگوں کے حجاب پہننا پسند کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
چادر
کئی مسلم ممالک میں چادر خواتین کے لباس کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ، اور کچھ دیگر علاقوں میں عورتیں گھروں سے باہر چادر پہنے بغیر نہیں نکلتیں۔ چادر زیادہ تر سفید یا کالے رنگ کی ہوتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
نقاب
نقاب عورت کے چہرے کو چھپا دیتا ہے اور صرف آنکھیں نظر آتی ہیں۔ کئی مرتبہ نقاب کا کپڑا اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ عورت کی چھاتی اور کمر بھی ڈھک جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
عبایا
عبایا ایک کھلی طرز کا لباس ہے جس میں پورا جسم ڈھکا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان عورتیں مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں کے عبایا زیب تن کرتی ہیں۔ مختلف موقعوں پر مختلف طرح کے عبایا پہنے جاتے ہیں۔ ان میں دیدہ زیب کڑھائی والے اور سادے، دونوں طرح کے عبایا شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Haider
برقعہ
برقعہ بھی عبایا کی ہی ایک قسم ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے کچھ حصوں میں ’ٹوپی برقعہ‘ پہنا جاتا ہے جس میں عورتیں آنکھوں کے سامنے والے کپڑے میں کچھ سوراخوں سے ہی باہر دیکھ سکتی ہیں۔
تصویر: AP
کوئی پردہ نہیں
بہت سی مسلمان عورتیں اپنے سر کو حجاب سے نہیں ڈھکتیں اور جدید ملبوسات پہننا پسند کرتی ہیں۔
فرانس میں، جہاں سیکولر سوچ کو قومی اقدار کا کلیدی حصہ سمجھا جاتا ہے اور انتخابی جنگ زیادہ تر دائیں بازو کی سوچ کی بنیاد پر لڑی جاتی ہے، اس مہم پر تنقید کرنے والوں میں انتہائی دائیں بازو کے عناصر کے علاوہ رائٹ ونگ کے عام سیاست دان بھی شامل ہو گئے تھے۔
یورپی یونین کے سابق مذاکرات کار کا موقف
بریگزٹ معاملات میں یورپی یونین کی طرف سے برطانیہ کے ساتھ بات چیت کرنے والے سابق اعلیٰ ترین مذاکرات کار میشل بارنیئر نے، جو چاہتے ہیں کہ اگلے صدارتی الیکشن میں فرانسیسی رائٹ ونگ انہیں اپنا امیدوار نامزد کر دے، اس مہم کو مسترد کرتے ہوئے کہا، ''میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ اتنی برا مشورہ کس کا تھا کہ یورپ میں ایسی کوئی مہم شروع کی جائے۔‘‘
دنیا کے مختلف مذاہب میں عقیدت کے طور پر سر کو ڈھانپا جاتا ہے۔ اس کے لیے کِپا، ٹوپی، پگڑی، چادر اور دستار سمیت بہت سی مختلف اشیاء استعمال کی جاتی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کس مذہب میں سر کو کیسے ڈھکا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Dyck
کِپا
یورپی یہودیوں نے سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں مذہبی علامت کے طور پر یارمولکے یا کِپا پہننا شروع کیا تھا۔ یہودی مذہبی روایات کے مطابق تمام مردوں کے لیے عبادت کرنے یا قبرستان جاتے وقت سر کو کِپا سے ڈھانپنا لازمی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Rothermel
بشپ کا تاج
مائٹر یا تاج رومن کیتھولک چرچ کے بشپس مذہبی رسومات کے دوران پہنتے ہیں۔ اس تاج نما ٹوپی کی پشت پر لگے دو سیاہ ربن بائبل کے عہد نامہ قدیم اور جدید کی علامت ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Seeger
پگڑی
سکھ مذہب کا آغاز شمالی بھارت میں پندرہویں صدی میں ہوا تھا۔ سکھ مت میں داڑھی اور پگڑی کو مذہبی اہمیت حاصل ہے۔ پگڑی عام طور پر سکھ مرد ہی باندھتے ہیں۔ نارنگی رنگ سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Dyck
چادر
مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں خواتین چادر اوڑھتی ہیں، جسے فارسی میں چادور کہتے ہیں۔ فارسی میں اس کے معنی خیمے کے ہیں۔ اس لباس سے پورا جسم ڈھک جاتا ہے۔ زیادہ تر سیاہ رنگ کی چادر استعمال کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M.Kappeler
راہباؤں کا حجاب
دنیا بھر میں مسیحی راہبائیں مذہبی طور پر ایک خاص قسم کا لباس پہنتی ہیں۔ یہ لباس مختلف طوالت اور طریقوں کے ہوتے ہیں اور ان کا دار و مدار متعلقہ چرچ کے مذہبی نظام پر ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
ہیڈ اسکارف
ہیڈ اسکارف کو حجاب بھی کہا جا سکتا ہے۔ حجاب پہننے پر مغربی ممالک میں شدید بحث جاری ہے۔ ترک اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے سروں کو ہیڈ اسکارف سے ڈھکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Schiffmann
شیتل
ھاسیدک برادری سے تعلق رکھنے والی شادی شدہ کٹر یہودی خواتین پر لازم ہے کہ وہ اپنے سر کے بال منڈوا کر وگ پہنیں۔ اس وگ کو شیتل کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Y. Dongxun
بیرت
رومن کیھتولک پادریوں نے تیرہویں صدی سے بیرت پہننا شروع کیا تھا۔ اس کی تیاری میں کپڑا، گتا اور جھالر استعمال ہوتے ہیں۔ جرمنی، ہالینڈ، برطانیہ اور فرانس میں اس ہیٹ کے چار کونے ہوتے ہیں جبکہ متعدد دیگر ممالک میں یہ تکونی شکل کا ہوتا ہے۔
تصویر: Picture-alliance/akg-images
نقاب یا منڈاسا
کاٹن سے بنا ہوا یہ اسکارف نما کپڑا کم از کم پندرہ میٹر طویل ہوتا ہے۔ اسے زیادہ تر مغربی افریقہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ طوارق جنگجو اپنا چہرہ چھپانے اور سر کو ڈھکنے کے لیے اسے بہت شوق سے پہنتے ہیں۔
یہودی شٹریمل مخمل اور فر سے بنائی جاتی ہے۔ شادی شدہ یہودی مرد اس ہیٹ کو چھٹیوں اور مذہبی تقاریب میں پہنتے ہیں۔ یہ جنوب مشرقی یورپ میں آباد ھاسیدک یہودی برادری نے سب سے پہلے پہننا شروع کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto
ہیٹ
شمالی امریکا کی آمش برادری کا شمار قدامت پسند مسیحیوں میں ہوتا ہے۔ آمش اٹھارہویں صدی میں یورپ سے امریکا جا کر آباد ہوئے تھے۔ ان کی خواتین بالکل سادہ جبکہ مرد تھوڑے مختلف قسم کے فیلٹ ہیٹ پہنتے ہیں۔
یہی نہیں خود پیرس میں صدر ماکروں کی حکومت کی طرف سے بھی تصدیق کر دی گئی کہ اس نے کونسل آف یورپ سے مطالبہ کیا ہے کہ اس یورپی مہم کو منسوخ کیا جائے۔
کونسل آف یورپ کی طرف سے مہم کے خاتمے کی تصدیق
کونسل آف یورپ 47 یورپی ممالک پر مشتمل وہ تنظیم ہے، جو انسانی حقوق سے متعلق یورپی کنوینشن کی حفاظت کا کام کرتی ہے۔ حجاب سے متعلق اس آن لائن مہم پر کی جانے والی تنقید کے بعد کونسل کے ترجمان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''ہم نے اس مہم سے متعلق اپنی ٹویٹس ہٹا دی ہیں اور اس وقت اس بارے میں غور کر رہے ہیں کہ اس پروجیکٹ کو مزید بہتر طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے۔‘‘
کونسل آف یورپ کے ترجمان نے تاہم یہ تصدیق نہ کی کہ حجاب سے متعلق اس یورپی مہم کی منسوخی کی وجہ فرانس میں کیے جانے والے شدید اعتراضات بنے۔
م م / ا ا (اے ایف پی، ای یو)
جدیدیت اور شائستگی سے مزین مسلم فیشن ملبوسات
مسلم خواتین کے لیے فیشن مسحور کن ہونے کے ساتھ متنازعہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت والے ممالک میں خواتین کے لیے ماڈیسٹ فیشن کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ یورپی ڈیزائنرز اس شعبے میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ریاض میں واقع بیلجیم سفارتخانے میں سعودی شہزادی صفیہ حسین اور بیلجیم کی فیشن ڈیزائنر کرستوف بیوفیس اپنی تازہ کلیکشن پیش کر رہی ہیں۔ یہ کلیکشن ماڈیسٹ فیشن یعنی جدت اور شائستگی پر مبنی ہے۔ یہ ایسا پہلا موقع ہے جب سعودی عرب کے فیشن شو میں مرد اور خواتین کو ایک ساتھ شرکت کی اجازت دی گئی ہے۔
فیشن سادہ لیکن پرکشش ہونا چاہیے۔ بیوفیس اور صفیہ نے سعودی شاہی خاندان کے سخت ڈریس کوڈ کے معیار پر پورا اترنے کے لیے اس بات کا خاص خیال رکھا۔ مگر اس فیشن شو میں شرکت کرنے والے زیادہ تر افراد مغربی ملبوسات زیب تن کیے ہوئے تھے۔
’خالقی شِک‘ نامی اس کلیکشن میں شوخ رنگوں اور بڑے نقش و نگار کا استعمال کم کیا گیا۔ پھیکے یا ہلکے رنگوں کے جبہ نما لباس روایتی عربی ملبوسات کی شان خیال کیے جاتے ہیں۔
سن 2017 کے دوران دبئی میں رنگارنگ ماڈیسٹ فیشن ویک کا انعقاد کیا گیا تھا۔ یہ ماڈل ترکی کے ’مسلمہ ویئر‘ نامی ڈیزائنر لیبل کا تیار کردہ لباس پیش کر رہی ہیں۔
تصویر: Mahmoud Khaled/AA/picture alliance
مسلمہ ویئر کے دلکش ملبوسات
نوجوان مسلم خواتین کے مزاج اور پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمہ ویئر کمپنی ایسے رنگارنگ نقش ونگار سے بھرے ملبوسات تیار کرتی ہے۔ انسٹاگرام پر اس لیبل کے پیج کے چالیس ہزار فالوورز ہیں۔
تصویر: Mahmoud Khaled/AA/picture alliance
ماڈیسٹ فیشن کی ٹاپ ماڈل
مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والی ٹاپ ماڈلز بھی ماڈیسٹ فیشن شو کی ریمپ پر جلوہ نما ہوتی ہیں۔ امریکا سے تعلق رکھنے والی حلیمہ عادن ترک ڈیزائنر راویت بغرباگلی کے نئے ملبوسات کی نمائش کر رہی ہیں۔
تصویر: Mahmoud Khaled/AA/picture alliance
ماڈیسٹ فیشن، سادہ لیکن متنازعہ
سیکولر اور قدامت پسند حلقوں کی جانب سے ماڈیسٹ فیشن پر تنقید کی جاتی ہے۔ صومالوی نژاد امریکی ماڈل حلیمہ عادن فیشن صنعت میں بطور ٹاپ ماڈل کام کرتی تھیں۔ لیکن سن 2020 میں انہوں نےیہ پیشہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ ان کے عقیدے کا احترام نہیں کیا جاتا۔