'حجاب کے خلاف احتجاج کرنے والی ایرانی خاتون کہاں گئی‘
صائمہ حیدر
22 جنوری 2018
ایک ایرانی خاتون وکیل نے ایسے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ بغیر حجاب کے احتجاج کرنے والی ایک خاتون کو ایرانی حکومت نے گرفتار کر لیا ہے۔ مذکورہ خاتون کی بغیر حجاب تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/A. Taherkenareh
اشتہار
اطلاعات کے مطابق اس خاتون نے ایران میں خواتین پر عائد لازمی حجاب کے خلاف سفید رنگ کا ایک اسکارف لہراتے ہوئے ’انقلاب سٹریٹ‘ نامی ایک مصروف شاہراہ پر احتجاج کیا تھا۔ اس کے بعد سے اس خاتون کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔
ایرانی خاتون کی اسکارف لہراتے ہوئے لی گئی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھیں۔ ان تصاویر کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ ملک میں بے روزگاری کے خلاف شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے ایک روز قبل لی گئی تھیں۔ اس نقطے نے بھی سفید اسکارف والی تصاویر کو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے میں مدد دی حالانکہ بظاہر احتجاجی مظاہروں اور ان تصاویر کا آپس میں کوئی ربط نہیں ہے۔
خاتون کے اپنے احتجاج کے بعد منظر عام سے غائب ہونے کے بعد سے سینکڑوں سوشل میڈیا صارفین نے ہیش ٹیگ ’وئیر از شی‘ استعمال کرتے ہوئے اس کے بارے میں استفسار کیا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم معروف خاتون وکیل نسرین ستودہ نے بتایا کہ وہ خاتون کے حوالے سے پتہ کرنے اتوار کے روز انقلاب اسٹریٹ گئی تھیں۔ ستودہ کے مطابق وہ اُس خاتون کا نام نہیں جان سکیں تاہم یہ ضرور پتہ چلا کہ وہ اکیس سال کی تھیں اور اُن کا ایک قریب ڈیڑھ سال کا ایک بچہ بھی ہے۔
نسرین ستودہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ خاتون کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ستودہ کے مطابق،’’ مجھے یہ خبر اُن عینی شاہدین نے دی ہے جنہوں نے پولیس کو اُس خاتون کو لے جاتے دیکھا بلکہ جو اُس کے ساتھ پولیس اسٹیشن تک بھی گئے۔ تاہم میرا اُس خاتون کے گھر والوں سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔‘‘
ایران کے اسلامی ضوابط کے مطابق خواتین کے لیے سر کو مکمل ڈھانپنے والا حجاب اور ایک لمبے کوٹ کا پہننا لازمی ہے۔ اس قانون کی خلاف ورزی کی سزا پانچ لاکھ ریال جرمانہ اور دو ماہ قید تک ہو سکتی ہے۔
ایرانی لڑکیوں کے تنگ، چُست اور رنگا رنگ ملبوسات
انقلاب ایران کے بعد ایک ضابطہٴ لباس بھی نافذ کر دیا گیا تھا۔ بہت سے لوگ اس کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں۔ اب ایرانی لڑکیوں کے لباس تنگ اور رنگین ہوتے جا رہے ہیں اور وہ حکومتی اداروں کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار نظر آتی ہیں۔
تصویر: IRNA
بال نظر نہ آئیں
ایران میں 1979ء کے بعد سے یہ قانون نافذ ہے کہ خواتین ’مہذب‘ لباس پہنیں گی۔ ضابطہٴ لباس کے مطابق خواتین کے سَر مکمل طور پر ڈھکے ہونے چاہییں، پتلون یا شلوار لمبی ہونی چاہیے اور ممکن ہو تو ملبوسات کے رنگ گہرے اور سیاہ ہونے چاہییں۔
تصویر: Isna
خاموش مزاحمت
گزشتہ سینتیس برسوں سے زائد عرصے سے ایرانی خواتین ضابطہٴ لباس کے خلاف خاموش مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ خواتین اسکارف اور لمبا کوٹ تو پہنتی ہیں لیکن اپنے انداز میں۔ اسکارف کے ساتھ بال بھی نظر آتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
بار بار معائنہ
پولیس کی نظر میں رنگین اور نئے ڈیزائن کے کپڑے ناپسندیدہ ہیں۔ ہر سال موسم گرما میں ایرانی سڑکوں پر ’اخلاقی پولیس‘ کے اہلکاروں کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے۔ جو بھی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے، اسے روک لیا جاتا ہے۔ اس دوران اکثر بحث و مباحثے کا آغاز ہو جاتا ہے کہ آیا واقعی سب کچھ ضابطہٴ لباس کے عین مطابق ہے۔
تصویر: ISNA
سخت نتائج
اگر ’اخلاقی پولیس‘ مطمئن نہیں ہوتی تو جرمانہ کر دیا جاتا ہے اور بعض اوقات گرفتار بھی۔ گرفتار ہونے والی خواتین کو تحریری طور پر لکھ کر دینا ہوتا ہے کہ وہ آئندہ ضابطہٴ لباس کی خلاف ورزی نہیں کریں گی۔
تصویر: FARS
کپڑے رنگین، چُست اور مختصر
متعدد ایرانی لڑکیاں ان حکومتی جرمانوں سے بے خوف نظر آتی ہیں۔ ’اخلاقی پولیس‘ کی مسلسل نگرانی کے باوجود نوجوان لڑکیاں رنگین، چھوٹے اور تنگ لباس پہنے نظر آتی ہیں۔ متعدد ماڈلز سوشل میڈیا میں نئے فیشن کے لباس پیش کرتی ہیں۔
تصویر: Hasan Koleini
دباؤ کے باوجود نئے فیشن
ایرانی ماڈل شبنم مولاوی کی تصویر امریکی فیشن میگزین FSHN کے سرورق پر شائع ہوئی تھی۔ مئی میں اس ماڈل کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس ماڈل پر ’غیراسلامی ثقافت کی تشہیر‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا لیکن چند دن بعد ہی اسے ضمانت پر رہائی مل گئی تھی۔
تصویر: fshnmagazine.com
روحانی حکومت اور پردہ
روحانی کی حکومت میں پردے کے معاملے میں نرمی برتے جانے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن نئے فیشن کے کپڑوں کی دلدادہ خواتین کے لیے یہ حکومت بھی ’سخت‘ ثابت ہوئی ہے۔ خواتین نئے فیشن کے ملبوسات پر کوئی سمجھوتہ کرتی نظر نہیں آتیں۔
تصویر: Isna
خالی وعدے
صدر حسن روحانی نے 2012ء میں اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ’سڑکوں پر خواتین کو ہراساں‘ کیے جانے کے عمل کا خاتمہ کر دیں گے۔ لیکن ڈریس کوڈ کی نگرانی کے ذمہ دار 20 اداروں میں سے چند ہی ان کے کنٹرول میں ہیں۔
تصویر: FARS
خفیہ اخلاقی پولیس
اب تہران حکومت نے ’خفیہ اخلاقی پولیس‘ بھی متعارف کروا دی ہے۔ رواں برس اپریل میں تہران پولیس کے سربراہ نے کہا تھا کہ سات ہزار خواتین اور مردوں کو بھرتی کیا گیا ہے، جو ’خفیہ اخلاقی پولیس‘ کا کردار ادا کریں گے۔
تصویر: cdn
انٹرنیٹ پر یکجہتی
جولائی میں سوشل میڈیا پر ایرانی نوجوان مردوں کی طرف سے خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک مہم کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ ضابطہٴ لباس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نوجوان لڑکوں نے اپنے سروں پر اسکارف لے کر تصاویر پوسٹ کرنا شروع کر دی تھیں۔