کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے مدنظرسعودی عرب نے اعلان کیا ہے اس برس محدود پیمانے پرعازمین فریضہ حج ادا کریں گے۔
اشتہار
سعودی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری اعلان کے مطابق اس برس بہت محدود تعداد میں سعودی شہریوں اور ان غیر ملکی شہریوں کو فریضہ حج ادا کرنے کی اجازت ہوگی جو اس وقت سعودی عرب میں مقیم ہیں۔
سعودی عرب کا یہ فیصلہ دنیا بھر میں کووڈ 19 کے کیسز میں مسلسل اضافہ کے پس منظر میں آیا ہے کیوں کہ لاکھوں کی تعداد میں آنے والے عازمین حج کے لیے سوشل ڈسٹینسنگ پر عمل تقریباً ناممکن ہوگا۔ سعودی عرب کے اس فیصلے سے تاہم فریضہ حج ادا کرنے کے خواہش مند دنیا بھر کے لاکھوں مسلمانوں کو مایوسی ہوئی ہے۔
سعودی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے ”سعودی مملکت نے عازمین حج اور عمرہ کی سلامتی اور تحفظ کو ہمیشہ اولین ترجیح دی ہے اور اس فیصلے کا مقصد بھی یہی ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے کسی عازم حج کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچے“۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے
”کورونا وائرس کی وبا، ازدہام اور بڑے اجتماعات میں اس کے پھیلنے، ممالک میں اس کی منتقلی اور عالمی سطح پر اس کے متاثرین کی تعداد میں اضافے کے خدشے کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس مرتبہ حج بہت محدود تعداد میں ہوگا اور سعودی عرب میں پہلے سے مقیم مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی حج کا فریضہ ادا کرسکیں گے۔“
سرکاری اعلامیے کے مطابق”یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ صحت عامہ کے نقطہ نظر سے حج بیت اللہ کی محفوظ انداز میں ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔ اس دوران تمام حفاظتی احتیاطی تدابیر کی پاسداری کی جائے، وبا کے خطرات سے بچنے کے لیے سوشل ڈسٹنسنگ کے پروٹوکولز کی پاسداری کی جائے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق بنی نوع انسان کی زندگیوں کا تحفظ کیا جائے۔“
خیال رہے کہ دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان فریضہ حج ادا کرنے کے لیے ہر سال سعودی عرب جاتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق 2019 میں تقریباً 25 لاکھ مسلمانوں نے حج ادا کیا تھا۔ ان میں بیرونی ملک سے آنے والے عازمین حج کی تعددا 18 لاکھ سے زیادہ تھی۔ تاہم سعودی حکومت کے تازہ فیصلے کے بعد اس سال دیگر ممالک سے حج کے لیے کوئی نہیں آسکے گا۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب میں رہنے والے مختلف ممالک کے سفارت کار یا سفارتی عملے کے افراد اپنے اپنے ملکوں کی نمائندگی کریں گے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب نے کورونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے مارچ کے اوائل میں اپنی سرحدیں بند کردی تھیں، فضائی سروس معطل کردی تھی اور اس سے قبل 27 فروری کو عمرے کی ادائیگی پربھی پابندی عاید کردی تھی۔ اب وہ بتدریج ان بندشوں کو ختم کررہا ہے اور سرکاری اور نجی دفاتر کھول دیے گئے ہیں۔
سعودی حکومت نے اسی ہفتے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے عائد کردہ بہت سی پابندیوں کو ختم کردیا ہے اور مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی سمیت مساجد میں پنج وقتہ نماز ادا کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب میں کورونا وائرس سے 1300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 61 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔
اسلامی تاریخ پر نگاہ رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب حج کو محدود کیا گیا ہے۔ تاریخ میں ایسے تقریباً 40 مواقع ہیں جب حج ادا نہیں ہوسکا۔
ج ا/ ص ز (ایجنسیاں)
اسلامی عبادات کا اہم رکن: حج
سعودی عرب کے مقدس مقام مکہ میں اہم اسلامی عبادت حج کی ادائیگی ہر سال کی جاتی ہے۔ حج کے اجتماع کو بڑے مذہبی اجتماعات میں شمار کیا جاتا ہے۔ رواں برس کے حج کے دوران سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
حاجیوں کی تعداد
زائرین سعودی شہر مکہ میں واقع خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہیں۔ یہ اسلامی مذہب کا سب سے مقدس ترین مقام ہے۔ ہر مسلمان پر ایک دفعہ حج کرنا واجب ہے، بشرطیکہ وہ اس کی استطاعت رکھتا ہوا۔ سن 1941 میں حج کرنے والوں کی تعداد محض چوبیس ہزار تھی جو اب سفری سہولتوں کی وجہ سے کئی گنا تجاوز کر چکی ہے۔ رواں برس یہ تعداد بیس لاکھ سے زائد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
خانہٴ کعبہ کا طواف
دوران حج زائرین مختلف اوقات میں خانہٴ کعبہ کا طواف کرتے ہیں اور حجر اسود کو چومنے کی سعادت بھی حاصل کرتے ہیں۔ ایک طواف کی تکمیل میں سات چکر شمار کیے جاتے ہیں۔ استعارۃً خانہ کعبہ کو اللہ کا گھر قرار دیا جاتا ہے۔ زائرین طواف کے دوران بلند آواز میں دعائیہ کلمات بھی ادا کرتے رہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
چون ملین حاجی
گزشتہ پچیس برسوں کے دوران حج کرنے والوں کی تعداد چون ملین کے قریب ہے۔ سعودی حکام کا خیال ہے کہ سن 2030 تک سالانہ بنیاد پر مکہ اور مدینہ کے زیارات کرنے والے زائرین کی تعداد تیس ملین کے قریب پہنچ جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Al-Rubaye
اسی لاکھ قرآنی نسخے
سعودی عرب کے محکمہٴ حج کے مطابق ہر روز مختلف زبانوں میں ترجمہ شدہ قرآن کے اسی لاکھ نسخے مختلف ممالک کے زائرین میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ مقدس مقامات میں افراد کو حسب ضرورت مذہبی وظائف کی کتب بھی پڑھنے کے لیے دی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
دو ہزار اموات
حج کے دوران دہشت گردی کے خطرے کو سعودی سکیورٹی حکام کسی صورت نظرانداز نہیں کرتے لیکن مناسک حج کے دوران بھگدڑ مچھے کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ ان میں سب سے خوفناک سن 2015 کی بھگدڑ تھی، جس میں دو ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ سعودی حکام اس بھگدڑ میں ہلاکتوں کی تعداد محض 769 بیان کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency
خصوصی ایمبیولینس سروس
مناسک حج کی ادائیگیوں کے دوران پچیس مختلف ہسپتالوں کو چوکس رکھا گیا ہے۔ تیس ہزار ہنگامی طبی امدادی عملہ کسی بھی ایمرجنسی سے نمٹنے کے الرٹ ہوتا ہے۔ ہنگامی صورت حال کے لیے 180 ایمبیولینسیں بھی ہر وقت تیار رکھی گئی ہیں۔ شدید گرمی میں بھی کئی زائرین علیل ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Sahib
تین ہزار وائی فائی پوائنس
رواں برس کے حج کے دوران سولہ ہزار ٹیلی کمیونیکیشن ٹاور تعمیر کیے گئے ہیں۔ انہیں تین ہزار وائی فائی پوائنٹس کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے۔ اس طرح رواں برس کے حج کو ’سمارٹ حج‘ بھی قرار دیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
ہزاروں خصوصی سول ڈیفنس اہلکاروں کی تعیناتی
رواں برس کے حج کے دوران ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ اٹھارہ ہزار شہری دفاع کے رضاکار بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ یہ اہلکار مختلف مقامات پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
حاجیوں کی آمد کا سلسلہ
مناسک حج کی عبادات میں شرکت کے لیے دنیا بھر سے بذریعہ ہوائی جہاز اور ہمسایہ ممالک سے زمینی راستوں سے لاکھوں افراد سعودی عرب پہنچ چکے ہیں۔ صرف چودہ ہزار انٹرنیشنل اور ڈومیسٹک پروازیں سعودی ہوائی اڈوں پر اتری ہیں۔ اکیس ہزار بسوں پر سوارہو کر بھی زائرین سعودی عرب پہنچے ہیں۔