1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’حج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کریں‘، سعودی انتباہ

عابد حسین18 ستمبر 2015

سعودی عرب نے عازمینِ حج کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ آئندہ ہفتے مکہ میں حج کے سالانہ اجتماع کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کریں۔ ریاض حکومت کو خدشہ ہے کہ مناسکِ حج کے دوران ناخوشگوار حالات کا امکان موجود ہے۔

تصویر: Amer Hilabi/AFP/Getty Images

سعودی عرب کے وزیر داخلہ اور ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف نے کہا ہے کہ سعودی سکیورٹی فورسز حج کے دوران پوری طرح چوکس رہیں گی اور کسی بھی غیر ذمہ دارانہ رویے کا بروقت اور مناسب جواب دیں گی۔ سعودی ولی عہد کا بیان سرکاری میڈیا پر جاری کیا گیا ہے اور اِس میں اُن کا مزید کہنا تھا کہ حج کی بین الاقوامیت کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی یا اللہ کے مہمانوں کی زندگیوں سے کھیلنے کا کوئی عمل کیا گیا تو ایسے کسی بھی فعل میں شریک افراد کو سخت کارروائی کا سامنا ہو گا۔

گزشتہ برس تیس لاکھ افراد کو حج کی سعادت ملی تھی لیکن رواں برس سعودی عرب نے سخت قوانین متعارف کروا دیے ہیں اور حج کرنے والوں کی تعداد نصف سے بھی کم ہے۔ اِس مرتبہ بارہ لاکھ کے قریب زائرین سعودی عرب حج کے لیے پہنچے ہیں۔ حج کی رسومات رواں برس 23 ستمبر کو عقیدت و احترام سے مکمل کی جائیں گی اور عیدالاضحیٰ چوبیس ستمبر کو منائی جائے گی۔ یہ امر اہم ہے کہ رواں برس کا حج عالم اسلام میں شدید تنازعات اور اختلافات کے تناظر میں ادا کیا جا رہا ہے۔ مسلم دنیا میں شیعہ اور سنی مسالک کی تقسیم ماضی سے کہیں زیادہ دیکھنے میں آ رہی ہے۔

سعودی عرب کے وزیر داخلہ اور ولی عہد شہزادہ محمد بن نائفتصویر: Imago/picture-alliance/AA

مکہ میں خانہ کعبہ کے ارد گرد مسجد الحرام میں موجود کئی اقوام کے زائرین اِس تمنا کا اظہار کرتے ہیں کہ عالمِ اسلام میں امن و سلامتی اور بھائی چارے کی فضا پیدا ہو سکے۔ شام کے مسلح تنازعے سے فرار ہو کر اردن میں مقیم علی سعید کے مطابق اُس کی خواہش ہے کہ متحارب لیڈروں کو عقل و شعور ملے اور وہ معصوم انسانوں کی قتل و غارت گری کو چھوڑ کر امن و سلامتی کو شعار بنائیں۔ بڑی عمر کے باریش ایرانی زائر عبداللہ رحمانی نے کہا کہ وہ ایران اور ساری دنیا کے مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ مکہ آئیں اور اِس مقام پر پائی جانے والی روحانیت سے گزرنے کا تجربہ کریں۔

شیعہ اور سنی عقائد کے ماننے والوں کے درمیان مسلح فرقہ واررانہ جھڑپیں سن 2011 سے عرب اسپرنگ کے ساتھ شروع ہیں۔ اب عراق، یمن، شام، اور لیبیا میں خانہ جنگی جیسے حالات چھائے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کی تین مساجد پر جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے حامیوں کی جانب سے خود کُش حملے کیے جا چکے ہیں۔ عرب دنیا کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عسکریت پسندوں کے نزدیک مساجد میں عبادت کرنے والوں کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں