حدیدہ پر قبضے کی لڑائی شہر کی گلیوں میں پہنچ گئی
11 نومبر 2018![Jemen Hodeida Regierungstruppen rücken vor](https://static.dw.com/image/46204944_800.webp)
سعودی عرب کی قیادت میں قائم عسکری اتحاد کے ذرائع نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ حدیدہ پر قبضے کی لڑائی اب شہر کی گلیوں میں داخل ہونا شروع ہو گئی ہے اور حوثی ملیشیا کو شدید حملوں کا سامنا ہے۔ دوسری جانب اس لڑائی میں یمنی صدر کی حامی فوج اور اُس کی اتحادی ملیشیا کو بھی شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔
ان عسکری ذرائع نے یقین کا اظہار کیا ہے کہ موجودہ حالات میں حوثی ملیشیا کو شہر بچانے کی مشکل کا بھی سامنا ہے۔ یمن کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ صدر منصور ہادی کی حامی فوج کو سعودی عسکری اتحاد کی مکمل عسکری مدد حاصل ہے۔ اس کے علاوہ حوثی مخالف یمنی قبائل بھی ہادی کی حامی فوج کے ہمراہ ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق حوثی ملیشیا کو ان مخالف ملیشیا کے کارکنوں کی وجہ سے لڑائی میں مشکل کا سامنا ہے کیونکہ یہ حدیدہ شہر کی اندرون سے آگاہی رکھتے ہیں۔ بحیرہ احمر کی بندرگاہ پر واقع اسٹریٹیجک نوعیت کے اس شہر میں متحارب فریقین کے چار سو سے زائد جنگجو لڑائی میں کام آ چکے ہیں۔
اس بندرگاہی شہر پر قبضے کی لڑائی گزشتہ دس روز سے جاری ہے اور اس کے آغاز پر منصور ہادی کی فوج کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا تھا کہ اب لڑائی شہر پر مکمل کنٹرول کے بعد ہی بند ہو گی۔ بڑی لڑائی شروع ہونے کے دوران یمنی فوج مسلسل ایران نواز حوثی ملیشیا پر حاوی ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
دوسری جانب اس شدید لڑائی کے باعث حوثی ملیشیا زوردار مقابلے کے ساتھ ساتھ مسلسل پیچھے ہٹنے پر مجبور ہے کیونکہ اُس کے گوریلوں کی مجموعی قوت میں دو پہلووں کی کمی واضح ہونا شروع ہو گئی ہے اس میں ایک مسلح افرادی قوت ہے اور دوسری جدید ہتھیاروں کی کمی ہے۔
اس وقت یمنی فوج حدیدہ کے سب سے بڑے ہسپتال مئی 22 ہسپتال کے علاقے الواہا میں داخل ہو گئی ہے۔ الواہا کا علاقے کا ہسپتال بندرگاہ اور شہر کے درمیان ہے۔ یہ حدیدہ کی بڑی سڑک صنعاء روڈ کے شمال پر واقع ہے۔
عسکری ذرائع کا خیال ہے کہ اگلے دو تین روز اس لڑائی میں انتہائی اہم ہو سکتے ہیں اور یمنی فوج کے پریشر سے حوثی ملیشیا انجام کار شہر میں سے پوری طرح پیچھے ہٹنے پر مجبور کرر دی جائے گی۔
یمن میں خانہ جنگی کی صورت حال سن 2015 سے پیدا ہے اور عالمی ادارہٴ صحت کے مطابق اب تک ہلاکتیں دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں۔ حقوق کے دیگر گروپوں کا خیال ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد معلوم اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔