حزب اللہ اور نصرہ فرنٹ کے مابین جنگجوؤں کی لاشوں کا تبادلہ
عاطف بلوچ، روئٹرز
30 جولائی 2017
ایران نواز لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ اور القاعدہ کے حامی شدت پسند گروہ النصرہ فرنٹ نے شامی خانہ جنگی میں ایک دوسرے کے خلاف لڑتے لڑتے مارے جانے والے اپنے اپنے جنگجوؤں کی لاشوں کا تبادلہ شروع کر دیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے تیس جولائی بروز اتوار بتایا کہ ایران نواز لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ اور القاعدہ کے حامی سنی انتہا پسندوں کے گروہ النصرہ فرنٹ نے جس معاہدے کے تحت آپس میں اپنے فائٹرز کی لاشوں کا تبادلہ آج اتوار کے دن سے شروع کیا ہے، وہ لبنان اور شام کے درمیان سرحدی علاقوں کے لیے طے پانے والی جنگ بندی ڈیل کا حصہ ہے۔
حزب اللہ کے نشریاتی ادارے المنار ٹیلی وژن نے بتایا کہ لبنان اور شام کے سرحدی علاقوں میں ان دونوں گروہوں نے جنگ بندی کا ایک معاہدہ کیا ہے اور شامی خانہ جنگی میں عرسال کی لڑائی میں مارے جانے والے جنگجوؤں کی لاشوں کا تبادلہ اسی ڈیل کے تحت کیا جا رہا ہے۔
اس سیزفائر ڈیل پر عملدرآمد جمعرات سے شروع ہوا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ اس معاہدے کے تحت النصرہ فرنٹ حزب اللہ کے پانچ قیدیوں کو بھی رہا کر دے گا۔ جواب میں النصرہ فرنٹ کو شمالی شامی علاقوں میں جانے کی اجازت ہو گی اور جو شخص بھی اس گروہ کے ساتھ جانا چاہے گا، اسے روکا نہیں جائے گا۔
یہ دونوں جنگجو گروہ کئی برسوں سے شام سے متصل لبنانی پہاڑی علاقے عرسال میں موجود ہیں، جہاں ان کے مابین جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ شامی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سنی جہادی گروہ النصرہ فرنٹ نے ہمسایہ ملک لبنان کے اس علاقے میں اپنے ٹھکانے بنا لیے تھے۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
تاہم حال ہی میں حزب اللہ کے جنگجوؤں نے عرسال میں النصرہ کے ٹھکانوں پر حملے شروع کر دیے تھے، جن کے نتیجے میں گزشتہ ہفتے کے دوران ہی ایران نواز شیعہ ملیشیا نے النصرہ فرنٹ کے جہادیوں کو کافی پیچھے دھکیل دیا تھا۔
حزب اللہ کے مطابق اس تازہ کارروائی میں اس سنی انتہا پسند گروہ کے ایک سو پچاس جنگجو مارے گئے تھے جبکہ اسی کارروائی میں حزب اللہ کے بھی دو درجن کے قریب فائٹر ہلاک ہو گئے تھے۔
شامی خانہ جنگی میں صد بشار الاسد کے حامی گروہ حزب اللہ کے بارے میں اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اب وہ عرسال میں داعش کے جنگجوؤں کے خلاف بھی بڑی کارروائی شروع کرنے والا ہے۔ النصرہ فرنٹ اور حزب اللہ کے درمیان سیز فائر ڈیل کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔