حزب اللہ نے لبنان حکومت چھوڑ دی
13 جنوری 2011سابق وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے ٹریبیونل کی طرف سے ممکنہ طور پر اس قتل کی فرد جرم حزب اللہ پر عائد کئے جانے کا امکان ہے۔ حزب اللہ نے اسی خدشے کے پیش نظر حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔ رفیق حریری کو 2005ء میں قتل کیا گیا تھا۔ قبل ازیں بدھ کو حزب اللہ اور اس کی اتحادی جماعت کے 11 وزراء نے اپنے استعفے پیش کئے تھے۔
اس سے پہلے لبنان کے وزیر صحت محمد جواد خلیفہ نے کہا تھا کہ استعفے لکھے جا چکے ہیں اور ان کا بدھ کی سہ پہر اعلان کر دیا جائے گا۔ وزراء کی طرف سے استعفے پیش کئے جانے سے قبل سعودی عرب اور شام نے مصالحتی کوششیں کی جو ناکام رہیں۔ لبنان میں سیاسی بحران ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک کے وزیراعظم سعد حریری نے واشنگٹن میں امریکی صدر باراک اوباما سے لبنان کی سیاسی صورتحال پر بات چیت کی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے فرانس، سعودی عرب اور دوسری طاقتوں کی طرف سے کی جانے والی مصالحتی کوششوں کے بارے میں بات چیت کی ہے، جن کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اقوام متحدہ کا ٹریبیونل بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا کام جاری رکھ سکے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے ٹریبیونل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ لبنان میں پر تشدد سیاست کا دور ختم ہونا چاہیے۔
اس ملاقات کے بعد سعد حریری فرانس کے صدر نکولا سارکوزی سے ملاقات کے لئے پیرس روانہ ہوگئے ہیں۔
شیعہ جماعت حزب اللہ ہمیشہ ہی سے اس الزام کو مسترد کرتی آئی ہے کہ وہ رفیق حریری کے قتل میں ملوث ہے۔ بدھ کو لبنان کے ایک اپوزیشن رکن جبران باصل نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے قائم کیا جانے والا تحقیقاتی ٹریبیونل ایک اسرائیلی منصوبہ ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے حزب اللہ کے استعفوں پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبنان کی کچھ اندرونی اور بیرونی قوتیں انصاف کی راہ میں حائل ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال سے کسی مسلح تصادم کا خدشہ موجود نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کو ایران اور شام کی جبکہ مقتول سُنی لیڈر رفیق حریری کے بیٹے سعد حریری کو سعودی عرب اور امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔
رپورٹ : امتیاز احمد
ادارت : شادی خان سیف