حزب اللہ کا اسرائیلی چوکی پر ٹینک شکن میزائلوں سے حملہ
1 ستمبر 2019
اسرائیلی فوج کے مطابق لبنان سے اسرائیلی حدود میں ٹینک شکن میزائل فائر کیے گئے۔ حزب اللہ نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ایک اسرائیلی ٹینک تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/G. Eliyahu
اشتہار
لبنان کی ایرانی حمایت یافتہ شیعہ تنظیم حزب اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اسرائیلی ٹینک کو میزائل حملے میں تباہ کر دیا جس سے ٹینک میں موجود اسرائیلی فوجی بھی ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی فوج نے لبنانی حدود سے ٹینک شکن میزائل داغے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جوابی کارروائی جاری ہے۔
تازہ کارروائیوں کے بعد خدشہ ہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین گزشتہ ہفتے سے جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق، ''لبان کی حدود سے اسرائیلی فوجی اڈے اور عسکری گاڑیوں کی جانب کئی ٹینک شکن میزائل داغے گئے۔ کئی میزائل نشانے پر لگے۔ اسرائیلی فوج نے جنوبی لبنان میں جوابی کارروائی شروع کر دی ہے۔‘‘
میزائل فائر کیے جانے کی اطلاع ملتے ہی اسرائیلی حکام نے لبنانی سرحد کے چار کلومیٹر تک کے فاصلے پر رہنے والے اپنے شہریوں کو فوری طور پر گھروں سے نہ نکلنے اور محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل ہونے کی ہدایات جاری کی تھیں۔
حسن نصراللہ نے اسرائیلی ڈرون حملوں کے جواب میں جوابی کارروائی کرنے کا اعلان کیا تھاتصویر: picture alliance/dpa/M. Naamani
اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین کشیدگی گزشتہ ہفتے سے جاری ہے۔ حزب اللہ کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے پچیس اگست کی علی الصبح لبنان میں حزب اللہ کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقے میں دو ڈرون حملے کیے گئے تھے۔ ایک ڈرون طیارہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے گر کر تباہ ہو گیا تھا جب کہ دوسرے ڈرون سے داغے گئے میزائل سے حزب اللہ کے میڈیا سینٹر کی عمارت کو نقصان پہنچا تھا۔ اسرائیل نے اب تک اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ نے ہفتے کے روز اعلان کیا تھا کہ مبینہ اسرائیلی ڈرون حملوں کے جواب میں تنظیم نے جوابی کارروائی کرنے کا فیصلے کر لیا ہے۔
لبنان میں حملوں سے چند روز قبل اسرائیل نے شام میں بھی حملے کیے تھے۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ ایران اور اس کے حمایتی شامی علاقے سے اسرائیل میں ڈرون حملہ کرنے والے تھے اور اسے روکنے کے لیے ہی شام میں حملے کیے گئے تھے۔
ش ح / ا ب ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)
حزب اللہ، ایرانی پشت پناہی رکھنے والی لبنانی تنظیم
لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری گروپ ملک میں نہایت طاقتور تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم اس کی طاقت، لبنان سمیت اس خطے میں تناؤ کا باعث ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Taher
حزب اللہ کا قیام
حزب اللہ یا ’ خدا کی جماعت‘ کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی جانب سے جنوبی لبنان پر اسرائیل کے 1982ء میں کیے جانے والے حملے کے ردعمل میں ڈالی گئی تھی۔ اس جماعت کے دو گروپ ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا عسکری۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسرائیل کے خلاف قومی حمایت
1980ء کی دہائی میں حزب اللہ بطور شیعہ ملیشیا کے ابھر کر سامنے آئی جس نے لبنان کی خانہ جنگی میں بڑا کردار ادا کیا۔ سن 2000ء میں اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان چھوڑنے کے پیچھے حزب اللہ کی ہی گوریلا کارروائیاں تھیں۔ پھر اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین 2006ء میں جنگ ہوئی اور اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کا دفاع کرنے کے سبب حزب اللہ کے لیے مذہب ومسلک سے مبراء ہو کر ملکی حمایت میں اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Zaatari
ایران کی پشت پناہی
اپنے معرض وجود میں آنے کے بعد حزب اللہ کو ایران اور شام سے عسکری، معاشی اور سیاسی حمایت حاصل رہی ہے۔ اس وقت اس جماعت کا عسکری ونگ، ملکی ا فوج سے زیادہ طاقتور اور خطے میں میں اثر ورسوخ کا حامل ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
سیاسی آلہ کار
لبنان میں 1975ء سے 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اختتام پر اس جماعت نے اپنی توجہ سیاست کی جانب مبذول کر لی۔ حزب اللہ لبنان کی اکثریتی شیعہ آبادی کی نمائندگی کے علاوہ ملک میں موجود دیگر فرقوں مثلاﹰ مسیحیوں کی اتحادی بھی ہے۔ حزب اللہ میں یہ سیاسی تبدیلی تنظیم کے موجودہ سربراہ حسن نصر اللہ کی سربراہی میں ہوئی جنہوں نے 1992ء سے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عسکری بازو
خانہ جنگی کے بعد لبنان کی دیگر جماعتوں کے بر عکس حزب اللہ نے اپنی جماعت کے عسکری بازو کو تحلیل نہیں کیا۔ اس پر ملک کی چند سیاسی جماعتوں نے اعتراض بھی کیا تاہم حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ عسکری بازو کی موجودگی اسرائیل اور دیگر بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
دہشت گرد گروپ؟
چند ممالک مثلاﹰ امریکا، اسرائیل، کینیڈا اور عرب لیگ کی جانب سے اس جماعت کو دہشت گرد تنظیم گردانا جاتا ہے۔ تاہم برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی یونین اس کی قانونی سیاسی سرگرمیوں اور عسکری بازو کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/I. Press
شامی خانہ جنگی میں موجودگی
حزب اللہ شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہے۔ حزب اللہ کی شامی خانہ جنگی میں شمولیت نے نہ صرف صدر بشار الاسد کو محفوظ کیا بلکہ شامی افواج کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل کے راستے محفوظ کیے اور لبنان کے ارد گرد ایسا محفوظ علاقہ تشکیل دیا ہے جو ان سنی عسکری جماعتوں کو شام سے دور رکھنے کا سبب ہے، جن سے شام کو خطرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Syrian Central Military Media
فرقہ بندی
لبنان ایک طویل عرصے سے خطے میں خصوصی طور پر ایران اور سعودی عرب کے مابین طاقت کی جنگ میں مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ تاہم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری غلبے اور شام کی جنگ میں شمولیت کے باعث لبنان سمیت خطے میں فرقوں کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔